منیب الرحمن کی نظم

    برگد کا پیڑ

    آنکھیں میچے سوچ میں گم دھونی رمائے کوئی سادھو جیسے بیٹھا ہو بچے کھیل رہے ہیں جن کی چیخوں سے خاموشی کے ساکن جوہڑ میں ہلچل جھونکے آتے ہیں لیکن یہ چپ سادھے رہتا ہے موت بھی شاید اس کے بڑھاپے کو چھونے سے ڈرتی ہے اس کا تن ماضی سے بوجھل ہے اور ہمارے دن اس کے بھاری پن کو سہمی سہمی نظروں سے ...

    مزید پڑھیے

    خانۂ متروک

    دروازے کے شیشوں سے لگی ہیں آنکھیں ہر گوشے میں ماضی کی کمیں گاہیں ہیں یادیں ہیں کہ بکھرے ہوں کھلونے جیسے کچھ آہٹیں کچھ قہقہے کچھ آہیں ہیں جو لوگ یہاں رہتے تھے ان کے سائے چپ چاپ پھرا کرتے ہیں ان کمروں میں کھوئی ہوئی آواز گئے وقتوں کی گونج اٹھتی ہے مانند اذاں کانوں میں میں آیا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    نام کا پتھر

    صدر دروازے پہ اک نام کا پتھر ہے ابھی لوح مرمر پہ ہے یہ نام جلی حرفوں میں میرے دادا سے ہے یہ نام جلی حرفوں میں یہ حویلی، یہ سن و سال کی تعمیر قدم اس میں کچھ لوگ رہا کرتے تھے آج تک سائے یہاں ان کے پھرا کرتے ہیں دل کو ہر بار گماں ہوتا ہے میرے ماں باپ، مرے بھائی بہن روزنوں سے نہ کہیں ...

    مزید پڑھیے

    کتاب کا پھول

    کھلا تھا صبح سویرے جب آفتاب کا پھول دیا تھا توڑ کے اس نے مجھے گلاب کا پھول زمانہ بیت گیا، اتفاق سے مجھ کو ملا ہے آج یہ سوکھا ہوا کتاب کا پھول ہجوم غم سے نکل آئے ہیں مرے آنسو کہ ہے یہ تحفۂ ماضی مرے شباب کا پھول

    مزید پڑھیے

    سنتھالی ناچ

    یہ چٹانوں کے بھنور ہیں جن سے ظلمت چیختی ہے آندھیوں کے دل کی دھڑکن دیو داروں کے تنوں میں مست شیروں کی گرج ہے جنگلوں میں مورچھل، نیزے، کمانیں لذتوں کے منہ سے باہر تند شعلوں کی زبانیں عورتوں کی آبنوسی چھاتیوں سے درد بن کر زہر کی بوندیں گریں گی ان کی رانیں تشنۂ پیکاں رہیں گی اور وحشت ...

    مزید پڑھیے

    اجنتا

    چٹانیں بول سکتی ہیں چٹانیں راز اپنے کھول سکتی ہیں دکھا سکتی ہیں یہ تقدیس کی دنیائے نا پیدا جہاں پر فکر و فن عزلت نشیں کی خانقاہیں ہیں جہاں احساس کی اندھی گپھائیں ہیں وہ کس کی انگلیاں تھیں جن کے لمس سحر آگیں نے انہیں اذن سخن بخشا وہ کس کی گرمی دل تھی کہ جس نے ان کو تن بخشا یہاں ہر ...

    مزید پڑھیے

    برگ ریز

    ٹھنڈ کھا کر ٹھٹھر گئے پتے آندھیوں میں بکھر گئے پتے پیڑ ہر راہ چلنے والے سے پوچھتے ہیں کدھر گئے پتے آئے لے کر جلوس آہوں کا سر جھکائے گزر گئے پتے اتنا سنسان تو نہ تھا منظر جتنا سنسان کر گئے پتے دل کی پگڈنڈیاں اداس ہیں آج کوئی کہتا ہے مر گئے پتے

    مزید پڑھیے

    سوکھا پیڑ

    اس باغ میں پیڑ تھے بہت سے جتنے تھے سبھی ہرے بھرے تھے صرف ایک اس جھنڈ سے جدا تھا بے برگ اداس اک طرف کھڑا تھا دیکھا تو وہیں ٹھہر گیا میں بے نام غموں سے بھر گیا میں ''کیوں رک گئے'' تم نے مجھ سے پوچھا میں چپ رہا کیا جواب دیتا کہتا کہ یہ نقش حسرتوں کا پیکر ہے گزشتہ موسموں کا یہ میری تمہاری ...

    مزید پڑھیے

    سمندر اور میں

    اک دن مجھ سے سمندر نے کہا کون اٹھائے گا مرا بار گراں اپنی آشفتہ سری کی خاطر میں نے قربان کیا عیش جہاں رات کو چین نہ دن کو آرام عمر ناشاد کٹی گرم فغاں مضمحل ہو گئے اعضا میرے دست و پا میں نہ رہی تاب و تواں موج کو کھیل سے فرصت ہی نہیں اس سبک سر کو مری فکر کہاں کچھ توقع تھی مجھے ساحل ...

    مزید پڑھیے

    نگر نگر

    ترا دھیان لیے میں نگر نگر گھوما شریک حال تھی تیری نظر کی پہنائی کہ آسمان و سمندر جگا دیے جس نے فضا میں ابر کے پیکر بنا دیے جس نے کبھی جو بیٹھ گیا میں شجر کے سائے میں تو میرے چہرے کو چھونے لگیں تری سانسیں ہزار باتیں تھیں پتوں کے سرسرانے میں ہزار لمس تھے جس وقت جھک گئیں شاخیں دم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3