Mukhtar Siddiqui

مختار صدیقی

  • 1919 - 1972

مختار صدیقی کی غزل

    نور سحر کہاں ہے اگر شام غم گئی

    نور سحر کہاں ہے اگر شام غم گئی کب التفات تھا کہ جو خوئے ستم گئی پھیرا بہار کا تو برس دو برس میں ہے یہ چال ہے خزاں کی جو رک رک کے تھم گئی شاید کوئی اسیر ابھی تک قفس میں ہے پھر موج گل چمن سے جو با چشم نم گئی قبضہ میں جوش گل نہ خزاں دسترس میں ہے راحت بھی کب ملی ہے اگر وجہ غم گئی ہاں ...

    مزید پڑھیے

    تھی تو سہی پر آج سے پہلے ایسی حقیر فقیر نہ تھی

    تھی تو سہی پر آج سے پہلے ایسی حقیر فقیر نہ تھی دل کی شرافت ذہن کی جودت اتنی بڑی تقصیر نہ تھی سچ کہتے ہو ہم ایسے کہاں اور سوز و گداز عشق کہاں سچ ہے مرے آئینۂ دل میں کوئی کبھی تصویر نہ تھی اب جو اچاٹ ہوئی ہے طبیعت شاید اب ہم رخصت ہیں بن کارن بے بات وگرنہ ایسی کبھی دلگیر نہ تھی اہل ...

    مزید پڑھیے

    پھر بہار آئی ہے پھر جوش میں سودا ہوگا

    پھر بہار آئی ہے پھر جوش میں سودا ہوگا زخم دیرینہ سے پھر خون ٹپکتا ہوگا بیتی باتوں کے وہ ناسور ہرے پھر ہوں گے بات نکلے گی تو پھر بات کو رکھنا ہوگا یورشیں کر کے امنڈ آئیں گی سونی شامیں لاکھ بھٹکیں کسی عنواں نہ سویرا ہوگا جی کو سمجھائیں گے متوالی ہوا کے جھونکے پھر کوئی لاکھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2