Mukhtar Siddiqui

مختار صدیقی

  • 1919 - 1972

مختار صدیقی کے تمام مواد

13 غزل (Ghazal)

    بستیاں کیسے نہ ممنون ہوں دیوانوں کی

    بستیاں کیسے نہ ممنون ہوں دیوانوں کی وسعتیں ان میں وہی لائے ہیں ویرانوں کی کل گنے جائیں گے زمرے میں ستم رانوں کے خیر مانگیں گے اگر آج ستم رانوں کی خواب باطل بھی تو ہوتے ہیں تن آسانوں کے سعیٔ مشکور بھی ہوتی ہے گراں جانوں کی زخم شاکی ہیں ازل سے نمک افشانوں کے بات رکھی گئی ہر دور ...

    مزید پڑھیے

    شوخ تھے رنگ ہر اک دور میں افسانوں کے

    شوخ تھے رنگ ہر اک دور میں افسانوں کے دل دھڑکتے ہی رہے آس میں انسانوں کے علم نے خیر نہ چاہی کبھی انسانوں کی ذرے برباد یونہی تو نہیں ویرانوں کے راہیں شہروں سے گزرتی رہیں ویرانوں کی نقش ملتے رہے کعبے میں صنم خانوں کے زندگی والہ و شیدا رہی فرزانوں کی نام روشن ہوئے ہر دور میں ...

    مزید پڑھیے

    موت کو زیست ترستی ہے یہاں

    موت کو زیست ترستی ہے یہاں موت ہی کون سی سستی ہے یہاں دم کی مشکل نہیں آساں کرتے کس قدر عقدہ پرستی ہے یہاں سب خرابے ہیں تمناؤں کے کون بستی ہے جو بستی ہے یہاں چھوڑو بے صرفہ ہیں ساون بھادوں دیکھو ہر آنکھ برستی ہے یہاں اب تو ہر اوج کا تارا ڈوبا اوج کا نام ہی پستی ہے یہاں

    مزید پڑھیے

    اس کی شکایت کون کرے گا دل کی وہ حالت گر نہ رہی

    اس کی شکایت کون کرے گا دل کی وہ حالت گر نہ رہی بارے تیرے تلون سے یکسانیٔ شام و سحر نہ رہی اپنی طرح اس وحشت گاہ میں ہر عنوان سے رسوا ہے جب سے فغان نیم شبی ممنون باب اثر نہ رہی اونچی شاخ کا پھول بھی کیا اور قربت کی مخموری کیا دور و قریب کی کوئی یاد بھی راحت دل بن کر نہ رہی جیتے رہے ...

    مزید پڑھیے

    ترے جلوے تیرے حجاب کو میری حیرتوں سے نمو ملی

    ترے جلوے تیرے حجاب کو میری حیرتوں سے نمو ملی کہ تھا شب سے دن کبھی تیرہ تر کبھی شب ہی آئنہ رو ملی تری قربتوں سے بھی کیا ہوا تری دوریوں کا تو کیا گلہ وہ مقام میں ہی نہ پا سکا مجھے جس مقام پہ تو ملی وہ ہواؤں ہی سے برس پڑے وہ تری نگہ سے چھلک اٹھے کوئی بے خودی نہ ہمیں ملی کہ جو بے نیاز ...

    مزید پڑھیے

تمام

6 نظم (Nazm)

    پرچھائیاں

    کیوں نہ اب تم سے تصور میں کروں بات سنو تم سے یہ کہنا ہے مجھے تم کہو گی نہیں میں وجہ سخن جان گئی یاد سے تیری ہی معمور ہیں دن رات یہ کہنا ہے مجھے تم کہو گی کہ میں ہستی کو کفن مان گئی راہ الفت میں کبھی ہوگا ترا ساتھ یہ کہنا ہے مجھے تم کہو گی میں زمانے کا چلن جان گئی کون بدلے گا یہ حالات ...

    مزید پڑھیے

    رات کی بات

    چوڑیاں بجتی ہیں چھاگل کی صدا آتی ہے فرط بیتابی سے اٹھ اٹھ کے نظر بیٹھ گئی تھام کر آس ہر آہٹ پہ جگر بیٹھ گئی میرا غم خانہ عبارت رہا تاریکی سے موج مہتاب کہاں خاک بہ سر بیٹھ گئی شبنم آلود ہوا جاتا ہے شب کا داماں تارے چمکے ہیں کہ اب گرد سفر بیٹھ گئی بھیگتی رات نہا کر مرے اشک خوں ...

    مزید پڑھیے

    رسوائی

    ٹیکا لگاؤں مانگ بھی صندل سے بھر چکوں دلہن بنوں تو چاہیے جوڑا سہاگ کا مہندی رچے گی پوروں کہیں جا کے دیر میں کنگھی کروں تو چڑھتی ہے کالوں کی اور لہر افشاں ہے بخت بھی کہ رہا ان کے پھیر میں کہتی ہے سانجھ بھور کے اب گھاٹ اتر چکوں تم بیٹھو میں تو آئی پہ جی سے گزر چکوں اتنے دنوں تو دل کی ...

    مزید پڑھیے

    اناؤنسر

    سرخ بتی نے اشارے سے کہا ہے بولو کھوج نظروں کا مٹا بات کے بندھن ٹوٹے میرے الفاظ کو لہروں کا کوئی پیمانہ چھین لے جائے گا دوری کے بہانے جھوٹے منہ سے جو نکلے اسی بات سے ناطہ چھوٹے دل میں باقی رہے موہوم سا احساس زیاں میں یہ سوچوں کہ ہر اک دشت بھی آبادی بھی میرے الفاظ کی تشہیر کا دیکھے ...

    مزید پڑھیے

    کھنڈر

    نہ یہ فنا ہے نہ یہ بقا ہے میان بود و عدم یہ کیسا طویل وقفہ ہے جو نوشتہ ہماری قسمت کا بن گیا ہے کنار دریا کبھی یہ بستی تھی لیکن اب نیستی و ہستی کے درمیان اک مقام‌‌ برزخ ہے ایسا برزخ کہ جس میں صدیوں سے کاخ و کو بام و در مسلسل شکستگی خستگی خرابی میں خیرہ سر ہیں حدود ہستی سے ہم نکل کر ...

    مزید پڑھیے

تمام