Mukhtar Siddiqui

مختار صدیقی

  • 1919 - 1972

مختار صدیقی کی غزل

    بستیاں کیسے نہ ممنون ہوں دیوانوں کی

    بستیاں کیسے نہ ممنون ہوں دیوانوں کی وسعتیں ان میں وہی لائے ہیں ویرانوں کی کل گنے جائیں گے زمرے میں ستم رانوں کے خیر مانگیں گے اگر آج ستم رانوں کی خواب باطل بھی تو ہوتے ہیں تن آسانوں کے سعیٔ مشکور بھی ہوتی ہے گراں جانوں کی زخم شاکی ہیں ازل سے نمک افشانوں کے بات رکھی گئی ہر دور ...

    مزید پڑھیے

    شوخ تھے رنگ ہر اک دور میں افسانوں کے

    شوخ تھے رنگ ہر اک دور میں افسانوں کے دل دھڑکتے ہی رہے آس میں انسانوں کے علم نے خیر نہ چاہی کبھی انسانوں کی ذرے برباد یونہی تو نہیں ویرانوں کے راہیں شہروں سے گزرتی رہیں ویرانوں کی نقش ملتے رہے کعبے میں صنم خانوں کے زندگی والہ و شیدا رہی فرزانوں کی نام روشن ہوئے ہر دور میں ...

    مزید پڑھیے

    موت کو زیست ترستی ہے یہاں

    موت کو زیست ترستی ہے یہاں موت ہی کون سی سستی ہے یہاں دم کی مشکل نہیں آساں کرتے کس قدر عقدہ پرستی ہے یہاں سب خرابے ہیں تمناؤں کے کون بستی ہے جو بستی ہے یہاں چھوڑو بے صرفہ ہیں ساون بھادوں دیکھو ہر آنکھ برستی ہے یہاں اب تو ہر اوج کا تارا ڈوبا اوج کا نام ہی پستی ہے یہاں

    مزید پڑھیے

    اس کی شکایت کون کرے گا دل کی وہ حالت گر نہ رہی

    اس کی شکایت کون کرے گا دل کی وہ حالت گر نہ رہی بارے تیرے تلون سے یکسانیٔ شام و سحر نہ رہی اپنی طرح اس وحشت گاہ میں ہر عنوان سے رسوا ہے جب سے فغان نیم شبی ممنون باب اثر نہ رہی اونچی شاخ کا پھول بھی کیا اور قربت کی مخموری کیا دور و قریب کی کوئی یاد بھی راحت دل بن کر نہ رہی جیتے رہے ...

    مزید پڑھیے

    ترے جلوے تیرے حجاب کو میری حیرتوں سے نمو ملی

    ترے جلوے تیرے حجاب کو میری حیرتوں سے نمو ملی کہ تھا شب سے دن کبھی تیرہ تر کبھی شب ہی آئنہ رو ملی تری قربتوں سے بھی کیا ہوا تری دوریوں کا تو کیا گلہ وہ مقام میں ہی نہ پا سکا مجھے جس مقام پہ تو ملی وہ ہواؤں ہی سے برس پڑے وہ تری نگہ سے چھلک اٹھے کوئی بے خودی نہ ہمیں ملی کہ جو بے نیاز ...

    مزید پڑھیے

    آخر دل کی پرانی لگن کر کے ہی رہے گی فقیر ہمیں

    آخر دل کی پرانی لگن کر کے ہی رہے گی فقیر ہمیں ہر رت آتے جاتے پائے ایک ہی شے کا اسیر ہمیں دھوم مچائے بہار کبھی اور پات ہرے کبھی پیلے ہوں ہر نیرنگیٔ قدرت دیکھے یکساں ہی دلگیر ہمیں کیا کیا پکاریں سسکتی دیکھیں لفظوں کے زندانوں میں چپ ہی کی تلقین کرے ہے غیرت مند ضمیر ہمیں جن کی ہلکی ...

    مزید پڑھیے

    دھیان کی موج کو پھر آئنہ سیما کر لیں

    دھیان کی موج کو پھر آئنہ سیما کر لیں کچھ تجلی کی حضوری کا بھی یارا کر لیں آج کا دن بھی یوں ہی بیت گیا شام ہوئی اور اک رات کا کٹنا بھی گوارا کر لیں جن خیالوں کے الٹ پھیر میں الجھیں سانسیں ان میں کچھ اور بھی سانسوں کا اضافہ کر لیں جن ملالوں سے لہو دل کا بنا ہے آنسو ان کے آنکھوں سے ...

    مزید پڑھیے

    رات کے بعد وہ صبح کہاں ہے دن کے بعد وہ شام کہاں

    رات کے بعد وہ صبح کہاں ہے دن کے بعد وہ شام کہاں جو آشفتہ سری ہے مقدر اس میں قید مقام کہاں بھیگی رات ہے سونی گھڑیاں اب وہ جلوۂ عام تمام بندھن توڑ کے جاؤں لیکن اے دل اے ناکام کہاں اب وہ حسرت رسوا بن کر جزو حیات ہے برسوں سے جس سے وحشت کرتے تھے تم اب وہ خیال خام کہاں زیست کی رہ میں اب ...

    مزید پڑھیے

    وہی اک پکار وہی فغاں مری مہر دیدہ و لب میں ہے

    وہی اک پکار وہی فغاں مری مہر دیدہ و لب میں ہے ہے کراہ جو شب و روز کی جو فضا کے شور و شغب میں ہے کبھی دن ڈھلے پہ ہو سامنا کبھی دید آخر شب میں ہے ہے یہی مآل طلب مرا تو مری عبادت رب میں ہے کبھی فاصلوں کی مسافتوں پہ عبور ہو تو یہ کہہ سکوں مرا جرم حسرت قرب ہے تو یہی کمی یہاں سب میں ...

    مزید پڑھیے

    کی شب حشر مری شام جوانی تم نے

    کی شب حشر مری شام جوانی تم نے چھیڑی کس دور کی کس وقت کہانی تم نے معنی و لفظ میں جو ربط ہے میں جان گیا کھولے اس طرح سے اسرار معانی تم نے میری آنکھوں ہی میں تھے ان کہے پہلو اس کے وہ جو اک بات سنی میری زبانی تم نے میری تاریخ نے دائم تمہیں باقی سمجھا رکھا ہر دور میں دائم مجھے فانی تم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2