Mukhtar Siddiqui

مختار صدیقی

  • 1919 - 1972

مختار صدیقی کی نظم

    پرچھائیاں

    کیوں نہ اب تم سے تصور میں کروں بات سنو تم سے یہ کہنا ہے مجھے تم کہو گی نہیں میں وجہ سخن جان گئی یاد سے تیری ہی معمور ہیں دن رات یہ کہنا ہے مجھے تم کہو گی کہ میں ہستی کو کفن مان گئی راہ الفت میں کبھی ہوگا ترا ساتھ یہ کہنا ہے مجھے تم کہو گی میں زمانے کا چلن جان گئی کون بدلے گا یہ حالات ...

    مزید پڑھیے

    رات کی بات

    چوڑیاں بجتی ہیں چھاگل کی صدا آتی ہے فرط بیتابی سے اٹھ اٹھ کے نظر بیٹھ گئی تھام کر آس ہر آہٹ پہ جگر بیٹھ گئی میرا غم خانہ عبارت رہا تاریکی سے موج مہتاب کہاں خاک بہ سر بیٹھ گئی شبنم آلود ہوا جاتا ہے شب کا داماں تارے چمکے ہیں کہ اب گرد سفر بیٹھ گئی بھیگتی رات نہا کر مرے اشک خوں ...

    مزید پڑھیے

    رسوائی

    ٹیکا لگاؤں مانگ بھی صندل سے بھر چکوں دلہن بنوں تو چاہیے جوڑا سہاگ کا مہندی رچے گی پوروں کہیں جا کے دیر میں کنگھی کروں تو چڑھتی ہے کالوں کی اور لہر افشاں ہے بخت بھی کہ رہا ان کے پھیر میں کہتی ہے سانجھ بھور کے اب گھاٹ اتر چکوں تم بیٹھو میں تو آئی پہ جی سے گزر چکوں اتنے دنوں تو دل کی ...

    مزید پڑھیے

    اناؤنسر

    سرخ بتی نے اشارے سے کہا ہے بولو کھوج نظروں کا مٹا بات کے بندھن ٹوٹے میرے الفاظ کو لہروں کا کوئی پیمانہ چھین لے جائے گا دوری کے بہانے جھوٹے منہ سے جو نکلے اسی بات سے ناطہ چھوٹے دل میں باقی رہے موہوم سا احساس زیاں میں یہ سوچوں کہ ہر اک دشت بھی آبادی بھی میرے الفاظ کی تشہیر کا دیکھے ...

    مزید پڑھیے

    کھنڈر

    نہ یہ فنا ہے نہ یہ بقا ہے میان بود و عدم یہ کیسا طویل وقفہ ہے جو نوشتہ ہماری قسمت کا بن گیا ہے کنار دریا کبھی یہ بستی تھی لیکن اب نیستی و ہستی کے درمیان اک مقام‌‌ برزخ ہے ایسا برزخ کہ جس میں صدیوں سے کاخ و کو بام و در مسلسل شکستگی خستگی خرابی میں خیرہ سر ہیں حدود ہستی سے ہم نکل کر ...

    مزید پڑھیے

    قریۂ ویراں

    جھلسے پیڑ جلی آبادی کھیتی سوکھی خرمن راکھ ہست و بود کا مدفن راکھ گرتے بام و در کے لیے گلیوں کا آغوش جیسے یہ دیواروں کو تھے کب سے وبال دوش بار ہٹا تو آیا ہوش پنگھٹ اور چوپال بھی سونے راہیں بھی سنسان گلیاں اور کوچے ویران جھونکے سوکھے پتے رولیں بکھری راکھ اڑائیں راکھ اور پتے بن کے ...

    مزید پڑھیے