Mohsin Ehsan

محسن احسان

پاکستان میں نئی غزل کے ممتاز شاعر

Prominent poet of New Ghazal in Pakistan

محسن احسان کے تمام مواد

50 غزل (Ghazal)

    گم اس قدر ہوئے آئینۂ جمال میں ہم

    گم اس قدر ہوئے آئینۂ جمال میں ہم اسی کو ڈھونڈتے ہیں اس کے خد و خال میں ہم جواز سست خرامی تلاش کرتے ہیں کس اہتمام سے رفتار ماہ و سال میں ہم زمانے ہم تری ہر کج روی کو جانتے ہیں اسی لئے کبھی آئے نہ تیری چال میں ہم جہاں پہ تجھ سے بچھڑنا بہت ضروری تھا اسی جگہ پہ کھڑے ہیں ترے خیال میں ...

    مزید پڑھیے

    نگار فن پہ حریفان شعر کی یلغار

    نگار فن پہ حریفان شعر کی یلغار نیام حرف کہاں ہے خیال کی تلوار رہین مرگ تمنا تھی کامرانیٔ وصل جھلس گیا ہے مجھے قرب شعلۂ رخسار ہوا کچھ ایسی چلی دشت نامرادی سے اجڑ کے بس نہ سکے پھر کبھی دلوں کے دیار کڑکتی دھوپ میں اب اور کس جگہ بیٹھوں سمٹ کے بن گیا دیوار سایۂ دیوار جلا گئی ہے مری ...

    مزید پڑھیے

    سر پہ تیغ بے اماں ہاتھوں میں پیالہ زہر کا

    سر پہ تیغ بے اماں ہاتھوں میں پیالہ زہر کا کس طرح ہونٹوں پہ لاؤں حال اپنے شہر کا بہہ رہے ہیں پانیوں میں گھر سفینوں کی طرح ساحلوں سے اس طرح اچھلا ہے پانی نہر کا اس بدن پر اب قبائے شہریاری تنگ ہے جس نے چھینا ہے کفن تک ہر غریب شہر کا رنگ آنکھوں میں عجب قوس قزح کے گھل گئے دیدنی ہے موج ...

    مزید پڑھیے

    اسیر حلقۂ زنجیر جاں ہوا ہے یہ دل

    اسیر حلقۂ زنجیر جاں ہوا ہے یہ دل کسی پہ رونا کہاں مہرباں ہوا ہے یہ دل اک اضطراب مسلسل میں کٹ رہی ہے حیات شکار سازش سود و زیاں ہوا ہے یہ دل جبیں بہ خاک نہم چشم بر ستارۂ صبح کبھی زمین کبھی آسماں ہوا ہے یہ دل بہت دنوں سے تھی مدھم چراغ درد کی لو خود اپنی آنچ سے شعلہ بجاں ہوا ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    خود سے نا خوش غیر سے بیزار ہونا تھا ہوئے

    خود سے نا خوش غیر سے بیزار ہونا تھا ہوئے ہم کو گرد کوچہ و بازار ہونا تھا ہوئے جن کی ساری زندگی دربار داری میں کٹی ان کو رسوا بر سر دربار ہونا تھا ہوئے ہم میں کچھ رندان خوش اوقات ایسے تھے جنہیں جانشین جبہ و دستار ہونا تھا ہوئے ہم کبھی شمشیر جوہر دار تھے لیکن ہمیں دست ناہنجار میں ...

    مزید پڑھیے

تمام

4 نظم (Nazm)

    قرب

    تمام شب مرے کمرے کہ زرد کھڑکی پر کبھی ہواؤں کے جھونکوں نے آ کے دستک دی کبھی دھڑکتی ہوئی تیرگی نے سر پٹخا کبھی سمٹتی بکھرتی سی سرد بوندوں نے خموش شیشے کہ دیوار سے گلے مل کر وہ ایک بات بہ انداز محرمانہ کہی جو میں نے شب کی مہکتی ہوئی خموشی میں رفیق راہ محبت سے والہانہ کہی وہ رات جس ...

    مزید پڑھیے

    صدا کار

    سننے والوں کو دھڑکتی ہوئی تنہائی میں کون در آتا ہے چپکے سے تمنا بن کر کس کی آواز ہواؤں کی سبک لہروں پر رقص کرتی نظر آتی ہے تماشا بن کر کون لفظوں کو عطا کرتا ہے تصویر کا حسن کون دل میں اتر آتا ہے مسیحا بن کر کس کی دھڑکن میں ہے کرداروں کے دل کی دھڑکن کون ابھر آتا ہے مہتاب کا ہالہ بن ...

    مزید پڑھیے

    کردار

    دیکھو، ہم سب ایک سفید کنول پر ٹیک لگائے تیر رہے ہیں اور محسوس یہ کرتے ہیں کہ ہم نے خود کو ناف زمیں سے مضبوطی سے باندھ رکھا ہے اپنی ہر خواہش کو ہم نے قتل کیا ہے تاکہ دل میں کوئی تمنا سر نہ اٹھانے پائے ذہن میں کوئی نیا خیال اگر در آتا ہے تو ہم اس پر خود اپنے ہاتھوں چونا کر دیتے ...

    مزید پڑھیے

    ایک نقطہ

    میرا جی چاہتا ہے نظم لکھوں اس کے لیے اس کی زلفوں کے لیے اس کی آنکھوں کے لیے اس کے انداز تکلم کے لیے جو مری روح کی تسکین کا سامان بنا اس کے ہر زوایہ جسم کی خاطر جو مرے جسم کی تزئین کی پہچان بنا میں مگر سوچتا ہوں جو سراپا ہے غزل اس کے لیے کیا لکھوں جو سمندر ہے اسے کس طرح دریا لکھوں اور ...

    مزید پڑھیے