نگار فن پہ حریفان شعر کی یلغار

نگار فن پہ حریفان شعر کی یلغار
نیام حرف کہاں ہے خیال کی تلوار


رہین مرگ تمنا تھی کامرانیٔ وصل
جھلس گیا ہے مجھے قرب شعلۂ رخسار


ہوا کچھ ایسی چلی دشت نامرادی سے
اجڑ کے بس نہ سکے پھر کبھی دلوں کے دیار


کڑکتی دھوپ میں اب اور کس جگہ بیٹھوں
سمٹ کے بن گیا دیوار سایۂ دیوار


جلا گئی ہے مری آگ پیرہن میرا
میں کیا گلہ کروں تجھ سے چراغ‌ محفل یار


ذرا رسائی‌ منزل گہ مراد تو دیکھ
چلے تھے شہر وفا سے پہنچ گئے سر دار


یہ کس نے سرد گلستاں کا ذکر چھیڑا ہے
نکھر چلا ہے نگاہوں میں پیکر‌ قد یار


یہ کس جزیرۂ‌ بے رنگ و بو میں بستے ہیں
نہ طائران عجم ہیں نہ آہوان تتار


یہ کون گزرا ہے محسنؔ خرابۂ دل سے
کہ اڑ رہا ہے ہر اک سمت حسرتوں کا غبار