یہ طے ہوا ہے کہ قاتل کو بھی دعا دیجے
یہ طے ہوا ہے کہ قاتل کو بھی دعا دیجے خود اپنا خون بہا پھر بھی خوں بہا دیجے نیاز و ناز بجا ہیں مگر یہ شرط وصال ہے سنگ راہ تعلق اسے ہٹا دیجے سنا تھا ہم نے کہ منزل قریب آ پہنچی کہاں ہیں آپ اگر ہو سکے صدا دیجے سحر قریب سہی پھر بھی کچھ بعید نہیں چراغ بجھنے لگے ہیں تو لو بڑھا ...