Mohammad Sadiq Qamar

محمد صادق قمر

محمد صادق قمر کی غزل

    آنسوؤں کا حساب کیا رکھنا

    آنسوؤں کا حساب کیا رکھنا شہر جاں زیر آب کیا رکھنا مکڑیاں جال بن رہی ہیں جہاں ان جھروکوں میں خواب کیا رکھنا قتل کرنے کے بعد قبروں پر سرخ و تازہ گلاب کیا رکھنا اس کی تقدیر تو بھڑکنا ہے شعلہ زیر نقاب کیا رکھنا

    مزید پڑھیے

    آج تک دیدۂ مشتاق سے پنہاں ہی رہے

    آج تک دیدۂ مشتاق سے پنہاں ہی رہے یہ الگ بات وہ نزدیک رگ جاں ہی رہے اور ہوں گے جنہیں ملتا ہے سکون خاطر ہم تری بزم میں آ کر بھی پریشاں ہی رہے اک فقط بزم نگاراں ہی پہ موقوف نہیں ہم سر دار بھی اے دوست غزل خواں ہی رہے یہ بھی ممکن ہے کوئی آئے سر راہ وفا یہ بھی ممکن ہے مرے بعد یہ ویراں ...

    مزید پڑھیے

    سبز پتوں کو جو ترستے ہیں

    سبز پتوں کو جو ترستے ہیں ان درختوں پہ کاش پھل دیکھوں اے غم دل اگر اجازت ہو دو گھڑی کے لئے سنبھل دیکھوں میں کہ سائے کو بھی ترستا ہوں خواب میں نت نیا محل دیکھوں ظلم کا ذائقہ تو ہو معلوم کیوں نہ اک پھول کو مسل دیکھوں شاید اپنا سراغ مل جائے دشت تنہائی سے نکل دیکھوں پھر سنبھالے ...

    مزید پڑھیے