آج تک دیدۂ مشتاق سے پنہاں ہی رہے

آج تک دیدۂ مشتاق سے پنہاں ہی رہے
یہ الگ بات وہ نزدیک رگ جاں ہی رہے


اور ہوں گے جنہیں ملتا ہے سکون خاطر
ہم تری بزم میں آ کر بھی پریشاں ہی رہے


اک فقط بزم نگاراں ہی پہ موقوف نہیں
ہم سر دار بھی اے دوست غزل خواں ہی رہے


یہ بھی ممکن ہے کوئی آئے سر راہ وفا
یہ بھی ممکن ہے مرے بعد یہ ویراں ہی رہے