قرطاس و قلم ہاتھ میں ہے اور شب مہ ہے
قرطاس و قلم ہاتھ میں ہے اور شب مہ ہے اے رب ازل کھول دے جو دل میں گرہ ہے اطراف سے ہر شب سمٹ آتی ہے سفیدی ہر صبح جبیں پر مگر اک روز سیہ ہے میں شام سے پہلے ہی پہنچ جاؤں تو بہتر جنگل میں ہوں اور سر پہ مرے بار گنہ ہے مہنگی ہے جہاں دھات مرے سرخ لہو سے زردی کے اس آشوب میں تو میری پنہ ...