Mohammad Izhar ul Haq

محمد اظہار الحق

محمد اظہار الحق کی غزل

    قرطاس و قلم ہاتھ میں ہے اور شب مہ ہے

    قرطاس و قلم ہاتھ میں ہے اور شب مہ ہے اے رب ازل کھول دے جو دل میں گرہ ہے اطراف سے ہر شب سمٹ آتی ہے سفیدی ہر صبح جبیں پر مگر اک روز سیہ ہے میں شام سے پہلے ہی پہنچ جاؤں تو بہتر جنگل میں ہوں اور سر پہ مرے بار گنہ ہے مہنگی ہے جہاں دھات مرے سرخ لہو سے زردی کے اس آشوب میں تو میری پنہ ...

    مزید پڑھیے

    نجات کے لیے روز سیاہ مانگتی ہے

    نجات کے لیے روز سیاہ مانگتی ہے زمین اہل زمیں سے پناہ مانگتی ہے بھرا نہ اطلس و مرمر سے پیٹ خلقت کا یہ بد نہاد اب آب و گیاہ مانگتی ہے ریاضتوں سے فرشتہ صفت تو ہو نہ سکی محبت آئی ہے تاب گناہ مانگتی ہے وہ رنگ کوچہ و بازار ہے کہ اب بستی گھروں سے دور الگ قتل گاہ مانگتی ہے رگوں میں ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے سر پہ کوئی ہاتھ تھا نہ سایہ تھا

    ہمارے سر پہ کوئی ہاتھ تھا نہ سایہ تھا بس آسماں تھا جسے جانے کیوں بنایا تھا کسی سے شام ڈھلے چھن گیا تھا پایۂ تخت کسی نے صبح ہوئی اور تخت پایا تھا وہ ایک صبح بہت زر فشاں تھی قریے پر اور ایک کھیت بہت سبز لہلہایا تھا بس ایک باغ تھا پانی کے جس میں چشمے تھے اور ایک گھر تھا جسے خاک سے ...

    مزید پڑھیے

    ترے سامنے تو سمجھ رہا تھا کہ پھول تھا

    ترے سامنے تو سمجھ رہا تھا کہ پھول تھا تجھے کیا خبر کہ یہ آئنا تھا کہ پھول تھا ترا پاؤں شام پہ آ گیا تھا کہ چاند تھا ترا ہجر صبح کو جل اٹھا تھا کہ پھول تھا ترا حسن سحر تھا ممکنات کی حد نہ تھی کف دست پر ترے خار اگا تھا کہ پھول تھا وہ کمال رخ تھا کرن تھی اس پہ کلی بھی تھی جو گلے ملا سر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3