Mohammad Izhar ul Haq

محمد اظہار الحق

محمد اظہار الحق کی غزل

    ایک چراغ یہاں میرا ہے ایک دیا وہاں تیرا

    ایک چراغ یہاں میرا ہے ایک دیا وہاں تیرا بیچ میں اقلیمیں پڑتی ہیں پانی اور اندھیرا کوئی نہ جانے کون سا لفظ ہے جس سے جی اٹھوں گا جس طائر میں جان ہے میری اس کا دور بسیرا ساحل پر تو ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا ہے شاید کسی جہاز میں بھر کر لائے کوئی سویرا بھرا ہوا ہے جانوروں اور ...

    مزید پڑھیے

    برون در نکلتے ہی بہت گھبرا گیا ہوں

    برون در نکلتے ہی بہت گھبرا گیا ہوں میں جس دنیا میں تھا کیوں اس سے واپس آ گیا ہوں کوئی سیارہ میرے اور اس کے درمیاں ہے میں کیا تھا اور دیکھو کس طرح گہنا گیا ہوں مجھے راس آ نہ پائیں گے یہ پانی اور مٹی کہ میں اک اور مٹی سے ہوں اور مرجھا گیا ہوں میں پتھر چوم کر تحلیل ہو جاتا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    جہاد عشق میں ہم عاشقوں کو وار دینا

    جہاد عشق میں ہم عاشقوں کو وار دینا یہ قربانی خدا توفیق دے سو بار دینا بصارت خوب ہے اب منصفی بھی اس کی دیکھو اب اس سے آئینہ لے کر اسے تلوار دینا زباں کے زہر کی کوئی گواہی دے نہ پائے اگر بوسہ دیا بھی تو پس دیوار دینا سنے ہیں تذکرے اس کے مگر دیکھی نہیں ہے محبت پاس سے گزرے تو کہنی ...

    مزید پڑھیے

    لہو میں کیا بتائیں روشنی کیسی ملی تھی

    لہو میں کیا بتائیں روشنی کیسی ملی تھی ملی تھی بس محبت جس طرح کی بھی ملی تھی بہت سی جمع کر رکھی تھیں اس نے کہکشائیں میں رویا تو مجھے اک قاش سورج کی ملی تھی اٹھاتے کس طرح پلکوں کی لمبائی کا جھگڑا بہت مشکل سے آنکھیں اور بینائی ملی تھی حیا تھی آنکھ میں گندم کے خوشے ہاتھ میں تھے عجب ...

    مزید پڑھیے

    وجود پر انحصار میں نے نہیں کیا تھا

    وجود پر انحصار میں نے نہیں کیا تھا کہ خاک کا اعتبار میں نے نہیں کیا تھا سفید ریشم کی اوڑھنی میرے ہاتھ میں تھی مگر اسے داغدار میں نے نہیں کیا تھا یہ بے نیازی کی خو مرے حسن میں بہت تھی مگر اسے بے قرار میں نے نہیں کیا تھا ملا تھا خورجین میں لیے میرا کاسۂ سر مگر اسے شرمسار میں نے ...

    مزید پڑھیے

    وجود پر انحصار میں نے نہیں کیا تھا

    وجود پر انحصار میں نے نہیں کیا تھا کہ خاک کا اعتبار میں نے نہیں کیا تھا سفید ریشم کی اوڑھنی میرے ہاتھ میں تھی مگر اسے داغ دار میں نے نہیں کیا تھا یہ بے نیازی کی خو مرے حسن میں بہت تھی مگر اسے بے قرار میں نے نہیں کیا تھا کہیں سے یک لخت زندگی میری کاٹ دے گا جو راستہ اختیار میں نے ...

    مزید پڑھیے

    متاع بے بہا آنسو زمیں میں بو دیا تھا

    متاع بے بہا آنسو زمیں میں بو دیا تھا پلٹ کر جب ترا گھر میں نے دیکھا رو دیا تھا عصا در دست ہوں اس دن سے بینائی نہیں ہے ستارہ آنکھ میں آیا تھا میں نے کھو دیا تھا زمانے حسن ثروت ہیچ سب اس کے مقابل تہی کیسہ کو اس پہلی نظر نے جو دیا تھا پروں کی ارغوانی چھاؤں پھیلائی تھی سر پر بہشتی ...

    مزید پڑھیے

    سنہری نیند سے کس نے مجھے بیدار کر ڈالا

    سنہری نیند سے کس نے مجھے بیدار کر ڈالا دریچہ کھل رہا تھا خواب میں دیوار کر ڈالا نشاں ہونٹوں کا لو دینے لگا ہے ذہن میں اب تو بالآخر میں نے اس کو مشعل رخسار کر ڈالا نقاہت اور بلا کا حسن اور آنکھوں کی دل گیری عجب بیمار تھا جس نے مجھے بیمار کر ڈالا مرے دل سے لپٹتی زلف بھی تو دیکھتا ...

    مزید پڑھیے

    اسی دنیا میں دنیائیں ہماری بھی بسی ہیں

    اسی دنیا میں دنیائیں ہماری بھی بسی ہیں روش سے سیڑھیاں مرمر کی پانی میں گئی ہیں محل ہے اور سلگتا عود ہے اور جھاڑ فانوس لہو سے مشک اعضا سے شعاعیں پھوٹتی ہیں تمنا کے جزیرے آسمانوں میں بنے ہیں مرے چاروں طرف لہریں اسی جانب اٹھی ہیں یہ کیسی دھوپ اور پانی میں افزائش ہوئی ہے بہشتی ...

    مزید پڑھیے

    پڑے ہوئے ہیں مرے جسم و جاں مرے پیچھے

    پڑے ہوئے ہیں مرے جسم و جاں مرے پیچھے ہے ایک لشکر غارت گراں مرے پیچھے پس وفات یہ بے دستخط مری تحریر نہیں ہے اور کوئی بھی نشاں مرے پیچھے مرے ملازم و خرگاہ اسپ اور شطرنج سب آئیں نظم سے ماتم کناں مرے پیچھے گزر رہی ہے اندھیرے میں اس بدن پر کیا نہ کھل سکے گی یہی چیستاں مرے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3