قرطبہ میں
بدن پہ کوئی ذرا ہے نہ ہاتھ میں تلوار اور اشک زار میں صدیوں کے اندلس کا سفر اس آسمان کے نیچے کہیں پڑاؤ نہ تھا عجب طلسم تھا وہ آٹھ سو برس کا سفر عجب نہیں جو کسی صبح پھول بن کے کھلوں مرا سفر ہے اندھیرے میں خار و خس کا سفر
بدن پہ کوئی ذرا ہے نہ ہاتھ میں تلوار اور اشک زار میں صدیوں کے اندلس کا سفر اس آسمان کے نیچے کہیں پڑاؤ نہ تھا عجب طلسم تھا وہ آٹھ سو برس کا سفر عجب نہیں جو کسی صبح پھول بن کے کھلوں مرا سفر ہے اندھیرے میں خار و خس کا سفر
ہوا بے مہر تھی اس رات ٹھنڈی اور کٹیلی سانس لینا سر سے اونچی لہر سے ٹکر لگانا تھا صدا کوئی نہیں تھی سمت کی تعین مشکل تھی نشیبی بستیوں میں راستے اک دوسرے میں ختم ہوتے تھے تجھے کیا علم ہے وہ رات سرتاپا شب ہجراں ہمارے حق میں کیسی تھی لکیریں ہاتھ کی نا مہرباں ماتھا معیشت کی طرح تنگ اور ...
اسے چاہیں تو آہیں دل کی سب راہیں دھوئیں سے تیرہ و تاریک کر ڈالیں نگاہیں یوں کراہیں جیسے تا حد نظر اس کی شعاعیں مرگ آسا جال پھیلا دیں ہر اک شب سانس کے تاروں کو الجھائے سحر دم خواب گہ پر کسمپرسی سایہ سایہ اس طرح منڈلائے پیراہن لہو میں تر بتر جیسے کسی تربت پہ لہرائے اسے ڈھونڈیں تو ...
گھنے پیڑ شاخوں پہ بور اور اونچے پہاڑ ہری جھاڑیاں اور سبزے کی موٹی تہیں سڑک کے کناروں پہ کھمبوں کے تار ہوا سے ہلیں سرسرائیں رسیلے جھکوروں میں وہ تیز نشہ کہ بس سو ہی جائیں کسی ایک کو پیاس لگ جائے تو سب کے سب کھیلتے مسکراتے نشیبی چٹانوں میں بہتے ہوئے میٹھے جھرنے کی جانب چلیں اور ...
اور اب میری مونچھیں پرانے سوئیٹر کی ادھڑی ہوئی سفید اون پیلے کاغذ میں رکھی سیہ فلم اور تھوک ڈبیا میں بند تیری ماں کے گھنے بال جنہیں چومتے چومتے میں نے راتیں تری سوچ میں آئنوں جیسے برآمدوں کی منقط سفیدی پہ مل دیں جہاں بین منڈلا رہے تھے جہاں قہر کی صبح آتے ہی سارے سیٹتھوسکوپ سانپ ...
کس لئے اس شے کا اب ماتم کروں کس لئے اس شے کا اب ماتم کروں روز و شب کا حسن جن لوگوں سے تھا وہ اور تھا ان کے اک اک رنگ روز و شب کا تھا کیا عجب آغاز ہستی، کیا عجب آغاز کار جیسے وہ ایثار پیشہ مرد دانا و غمیں جن کے دل میں درد رہتے تھے مکیں اک دیا تنہا کسی کا کیوں جلے ایسے ہی بس خواب ...