Mohammad Izhar ul Haq

محمد اظہار الحق

محمد اظہار الحق کے تمام مواد

24 غزل (Ghazal)

    خزاں تجھ پر یہ کیسا برگ و بار آنے لگا ہے

    خزاں تجھ پر یہ کیسا برگ و بار آنے لگا ہے مجھے اب موسموں پر اعتبار آنے لگا ہے کہاں دوپہر کی حدت کہاں ٹھنڈک شفق کی سیہ ریشم میں چاندی کا غبار آنے لگا ہے کھلیں گے وصل کے در دوسری دنیاؤں میں بھی بالآخر ہجر کے رخ پر نکھار آنے لگا ہے مرے اسباب میں مشکیزہ و خورجین رکھنا سفر کی شام ہے ...

    مزید پڑھیے

    اک کھلا میداں تماشا گاہ کے اس پار ہے

    اک کھلا میداں تماشا گاہ کے اس پار ہے جس میں ہر رقاص کا اک آئنہ تیار ہے ریت کے ذریعے ہماری منزلیں اور ان کی ہم پس یہاں سمت سفر کا جاننا بے کار ہے رات اور طوفان ابر و باد میرے ہر طرف دور لو دیتی ہوئی اک مشعل رخسار ہے پھر کبھی اٹھے تو مل لیں گے نہ اتنے دکھ اٹھا موت سے ہوتا ہوا اک ...

    مزید پڑھیے

    دشت نوردی میں کوئی سات تھا

    دشت نوردی میں کوئی سات تھا میں بھی عجب منظر باغات تھا ذرہ تھا یا خار تھا جو کچھ بھی تھا میرے لیے شارح آیات تھا ڈوب گئے اس میں کئی پورے چاند در ترا چاہ طلسمات تھا مجھ کو یہ دھن سائے میں بیٹھیں کہیں تجھ کو مگر شوق مہمات تھا پاؤں تلے اڑتا ہوا تخت زر سر پہ مرے سایۂ جنات تھا

    مزید پڑھیے

    نمک ان آنسوؤں میں کم نہ تھا پر نم بہت اچھا

    نمک ان آنسوؤں میں کم نہ تھا پر نم بہت اچھا گھروں میں دانۂ گندم نہ تھا ماتم بہت تھا مری آنکھوں پہ بھی زرتار پردے جھولتے تھے ترے بالوں میں بھی کچھ ان دنوں ریشم بہت تھا مزے سارے تماشا گاہ دنیا میں اٹھائے مگر اک بات جو دل میں تھی جس کا غم بہت تھا سیاہی رات کی پیچھے سمندر دن کا ...

    مزید پڑھیے

    میں وہم بیچتا ہوں وسوسے بناتا ہوں

    میں وہم بیچتا ہوں وسوسے بناتا ہوں ستارے دیکھتا ہوں زائچے بناتا ہوں گراں ہے اتنا تو کیوں وقت ہو مجھے درکار مزے سے بیٹھا ہوا بلبلے بناتا ہوں مسافروں کا مرے گھر ہجوم رہتا ہے میں پیاس بانٹتا ہوں آبلے بناتا ہوں خرید لاتا ہوں پہلے ترے وصال کے خواب پھر ان سے اپنے لیے رتجگے بناتا ...

    مزید پڑھیے

تمام

6 نظم (Nazm)

    قرطبہ میں

    بدن پہ کوئی ذرا ہے نہ ہاتھ میں تلوار اور اشک زار میں صدیوں کے اندلس کا سفر اس آسمان کے نیچے کہیں پڑاؤ نہ تھا عجب طلسم تھا وہ آٹھ سو برس کا سفر عجب نہیں جو کسی صبح پھول بن کے کھلوں مرا سفر ہے اندھیرے میں خار و خس کا سفر

    مزید پڑھیے

    شب ہجراں

    ہوا بے مہر تھی اس رات ٹھنڈی اور کٹیلی سانس لینا سر سے اونچی لہر سے ٹکر لگانا تھا صدا کوئی نہیں تھی سمت کی تعین مشکل تھی نشیبی بستیوں میں راستے اک دوسرے میں ختم ہوتے تھے تجھے کیا علم ہے وہ رات سرتاپا شب ہجراں ہمارے حق میں کیسی تھی لکیریں ہاتھ کی نا مہرباں ماتھا معیشت کی طرح تنگ اور ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    اسے چاہیں تو آہیں دل کی سب راہیں دھوئیں سے تیرہ و تاریک کر ڈالیں نگاہیں یوں کراہیں جیسے تا حد نظر اس کی شعاعیں مرگ آسا جال پھیلا دیں ہر اک شب سانس کے تاروں کو الجھائے سحر دم خواب گہ پر کسمپرسی سایہ سایہ اس طرح منڈلائے پیراہن لہو میں تر بتر جیسے کسی تربت پہ لہرائے اسے ڈھونڈیں تو ...

    مزید پڑھیے

    نظم

    گھنے پیڑ شاخوں پہ بور اور اونچے پہاڑ ہری جھاڑیاں اور سبزے کی موٹی تہیں سڑک کے کناروں پہ کھمبوں کے تار ہوا سے ہلیں سرسرائیں رسیلے جھکوروں میں وہ تیز نشہ کہ بس سو ہی جائیں کسی ایک کو پیاس لگ جائے تو سب کے سب کھیلتے مسکراتے نشیبی چٹانوں میں بہتے ہوئے میٹھے جھرنے کی جانب چلیں اور ...

    مزید پڑھیے

    ناتواں دوش پر شال

    اور اب میری مونچھیں پرانے سوئیٹر کی ادھڑی ہوئی سفید اون پیلے کاغذ میں رکھی سیہ فلم اور تھوک ڈبیا میں بند تیری ماں کے گھنے بال جنہیں چومتے چومتے میں نے راتیں تری سوچ میں آئنوں جیسے برآمدوں کی منقط سفیدی پہ مل دیں جہاں بین منڈلا رہے تھے جہاں قہر کی صبح آتے ہی سارے سیٹتھوسکوپ سانپ ...

    مزید پڑھیے

تمام