تعمیر کو تخریب سے ملتا ہے کمال
تعمیر کو تخریب سے ملتا ہے کمال تخریب ہی تعمیر کا ورنہ ہے مآل تشکیک کی بنیاد پہ قائم جو نہ ہو دل میں وہ یقیں بنتا ہے تشکیک کے جال
تعمیر کو تخریب سے ملتا ہے کمال تخریب ہی تعمیر کا ورنہ ہے مآل تشکیک کی بنیاد پہ قائم جو نہ ہو دل میں وہ یقیں بنتا ہے تشکیک کے جال
یہ سلسلۂ زلف تجسس ہے دراز انجام کہاں سے؟ کہ ابھی ہے آغاز تشکیک کے ہونے میں کوئی حرج نہیں لیکن نہ یہ 'انکار' کا ہو جائے جواز