انسان ہے خود اتنا کثیر الاطراف
انسان ہے خود اتنا کثیر الاطراف انسان کو انساں نظر آتا نہیں صاف ہر شخص ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ابھی کچھ ہر چہرے پہ اتنے پر اسرار غلاف
انسان ہے خود اتنا کثیر الاطراف انسان کو انساں نظر آتا نہیں صاف ہر شخص ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ابھی کچھ ہر چہرے پہ اتنے پر اسرار غلاف
جاہل بھی ہیں سقراط سند زاد بھی ہیں صید تا فتراک بھی صیاد بھی ہیں باہر سے پیمبر نظر آتے ہیں مگر اندر سے یہ بوجہل کے ہم زاد بھی ہیں
پشت و شکم و چشم و لب و گوش و دہان اس ربط تن و توش کو انسان نہ جان اسناد کا پندار نہ دولت کا خمار ہوتا ہے شرافت سے مشخص انسان
یہ دور ہے یوں اپنی بصیرت کا قتیل جیسے نفس قم سے مسیحا ہو علیل فطرت کی ہے تسخیر نہ آدم کا عروج یہ وقت کے تابوت میں ہے آخری کیل