Mahirul Qadri

ماہر القادری

ماہر القادری کی غزل

    ان کی خوشی یہی ہے تو اچھا یونہی سہی

    ان کی خوشی یہی ہے تو اچھا یونہی سہی الفت کا نام آج سے دیوانگی سہی ہر چند نامراد ہوں پھر بھی ہوں کامیاب کوشش تو کی ہے کوشش برباد ہی سہی غنچوں کے دل سے پوچھئے لطف شگفتگی باد صبا پہ تہمت آوارگی سہی جب چھڑ گئی ہے کاکل سب رنگ کی غزل ایسے میں اک قصیدۂ رخسار بھی سہی ماہرؔ سے اجتناب ...

    مزید پڑھیے

    کس قیامت کی گھٹا چھائی ہے

    کس قیامت کی گھٹا چھائی ہے دل کی ہر چوٹ ابھر آئی ہے درد بدنام تمنا رسوا عشق رسوائی ہی رسوائی ہے اس نے پھر یاد کیا ہے شاید دل دھڑکنے کی صدا آئی ہے زلف و رخسار کا منظر توبہ شام اور صبح کی یکجائی ہے ہم سے چھپ چھپ کے سنورنے والے چشم آئینہ تماشائی ہے دل تمنا سے ہے کتنا بے ...

    مزید پڑھیے

    یوسفی گر نہیں ممکن تو زلیخائی کر

    یوسفی گر نہیں ممکن تو زلیخائی کر ان سے پیدا کوئی تقریب شناسائی کر پہلے ہر غم کی محبت میں پذیرائی کر چاک پھر دامن تمکین و شکیبائی کر روبرو ان کے مرا حال سنانے والے اپنی جانب سے بھی کچھ حاشیہ آرائی کر نہ تمنا نہ تری یاد نہ غم ہو نہ خوشی کبھی ایسا بھی عطا عالم تنہائی کر میری قسمت ...

    مزید پڑھیے

    ساقی کی نوازش نے تو اور آگ لگا دی

    ساقی کی نوازش نے تو اور آگ لگا دی دنیا یہ سمجھتی ہے مری پیاس بجھا دی ایک بار تجھے عقل نے چاہا تھا بھلانا سو بار جنوں نے تری تصویر دکھا دی اس بات کو کہتے ہوئے ڈرتے ہیں سفینے طوفاں کو خودی دامن ساحل نے ہوا دی مانا کہ میں پامال ہوا زخم بھی کھائے اوروں کے لیے راہ تو آسان بنا ...

    مزید پڑھیے

    احساس خوشی مٹ جاتا ہے افسردہ طبیعت ہوتی ہے

    احساس خوشی مٹ جاتا ہے افسردہ طبیعت ہوتی ہے دل پر وہ گھڑی بھی آتی ہے جب غم کی ضرورت ہوتی ہے دو حرف بھی میرے سن نہ سکے تم اتنے کیوں بیزار ہوئے میں نے تمہیں اپنا سمجھا تھا اپنوں سے شکایت ہوتی ہے یہ سود و زیاں کے پیمانے یہ جھوٹے سچے افسانے ان اہل ہوس کی باتوں سے بدنام محبت ہوتی ...

    مزید پڑھیے

    فرصت آگہی بھی دی لذت بے خودی بھی دی

    فرصت آگہی بھی دی لذت بے خودی بھی دی موت کے ساتھ ساتھ ہی آپ نے آگہی بھی دی سوز دروں عطا کیا جرأت عاشقی بھی دی ان کی نگاہ ناز نے غم ہی نہیں خوشی بھی دی اس نے نیاز و ناز کے سارے ورق الٹ دیئے دست خلیل بھی دیا صنعت آذری بھی دی پھر بھی مری نگاہ میں دونوں جہاں سیاہ تھے میری شب فراق کو ...

    مزید پڑھیے

    اگر فطرت کا ہر انداز بیباکانہ ہو جائے

    اگر فطرت کا ہر انداز بیباکانہ ہو جائے ہجوم رنگ و بو سے آدمی دیوانہ ہو جائے کرم کیسا ستم سے بھی نہ وہ بیگانہ ہو جائے میں ڈرتا ہوں محبت میں کہیں ایسا نہ ہو جائے مجھے اس انجمن میں بار پا کر اس پہ خدشہ ہے مرا انداز بیتابی نہ گستاخانہ ہو جائے نگاہ مست ساقی کی طلسم رنگ و مستی ہے کہیں ...

    مزید پڑھیے

    اب اس طرح ستم روزگار ہوتا ہے

    اب اس طرح ستم روزگار ہوتا ہے قفس کے سامنے ذکر بہار ہوتا ہے خدا کے واسطے دامن کا چاک سینے دو کبھی کبھی تو جنوں ہوشیار ہوتا ہے وفا کا ذکر ہی کیوں چھیڑتے ہیں اہل وفا جب ان کی خاطر نازک پہ بار ہوتا ہے وہ سامنے ہوں تو آنسو نکل ہی جاتے ہیں یہ جرم وہ ہے جو بے اختیار ہوتا ہے میں مطمئن ...

    مزید پڑھیے

    مانا مقام عشرت ہستی بلند ہے

    مانا مقام عشرت ہستی بلند ہے میں دل کو کیا کروں کہ اسے ناپسند ہے تم کو حجاب مجھ کو تماشہ پسند ہے میری نظر تمہاری نظر سے بلند ہے اللہ رے دل کی عشق میں دیوانہ واریاں اندیشۂ زیاں ہے نہ خوف گزند ہے آنکھوں میں آ چکی ہے محبت کی واردات طوفان بے پناہ پیالوں میں بند ہے اب ان کا انتخاب ...

    مزید پڑھیے

    چشم نم پر مسکرا کر چل دیئے

    چشم نم پر مسکرا کر چل دیئے آگ پانی میں لگا کر چل دیئے ساری محفل لڑکھڑاتی رہ گئی مست آنکھوں سے پلا کر چل دیئے گرد منزل آج تک ہے بے قرار اک قیامت ہی اٹھا کر چل دیئے میری امیدوں کی دنیا ہل گئی ناز سے دامن بچا کر چل دیئے مختلف انداز سے دیکھا کئے سب کی نظریں آزما کر چل دیئے گلستاں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2