Mahirul Qadri

ماہر القادری

ماہر القادری کی غزل

    کچھ اس طرح نگاہ سے اظہار کر گئے

    کچھ اس طرح نگاہ سے اظہار کر گئے جیسے وہ مجھ کو واقف اسرار کر گئے اقرار کر دیا کبھی انکار کر گئے بے خود بنا دیا کبھی ہشیار کر گئے یکتائی جمال کی حیرت نہ پوچھئے ہر ماسوا کے وہم سے بے زار کر گئے کچھ اس ادا سے جلوۂ معنی کی شرح کی میرے خیال و فکر کو بے کار کر گئے اللہ رے ان کے جلوۂ ...

    مزید پڑھیے

    کسی کی بے رخی کا غم نہیں ہے

    کسی کی بے رخی کا غم نہیں ہے کہ اتنا ربط بھی اب کم نہیں ہے نہ ہوشیاری نہ غفلت اور نہ مستی ہمارا اب کوئی عالم نہیں ہے رگ جاں سے بھی وہ نزدیک تر ہیں مگر یہ فاصلہ بھی کم نہیں ہے یہاں کیا ذکر شرم و آبرو کا یہ دور عظمت مریم نہیں ہے فغاں اک مشغلہ ہے عاشقوں کا یہ عادت بر بنائے غم نہیں ...

    مزید پڑھیے

    اے نگاہ دوست یہ کیا ہو گیا کیا کر دیا

    اے نگاہ دوست یہ کیا ہو گیا کیا کر دیا پہلے پہلے روشنی دی پھر اندھیرا کر دیا آدمی کو درد دل کی قدر کرنی چاہئے زندگی کی تلخیوں میں لطف پیدا کر دیا اس نگاہ شوق کی تیر افگنی رکھی رہی میں نے پہلے اس کو مجروح تماشا کر دیا ان کی محفل کے تصور نے پھر ان کی یاد نے میرے غم خانہ کی رونق کو ...

    مزید پڑھیے

    ہر نفس میں دل کی بیتابی بڑھاتے جائیے

    ہر نفس میں دل کی بیتابی بڑھاتے جائیے دور رہ کر بھی مرے نزدیک آتے جائیے اک ذرا تھم تھم کے یہ پردے اٹھاتے جائیے دیکھنے والوں کی نظریں آزماتے جائیے میرے اس ظلمت کدے کو جگمگاتے جائیے ہو سکے تو میری خاطر مسکراتے جائیے پھر اسی انداز سے نظریں ملاتے جائیے دیکھنے والوں کی نظریں ...

    مزید پڑھیے

    وہ ہنس ہنس کے وعدے کیے جا رہے ہیں

    وہ ہنس ہنس کے وعدے کیے جا رہے ہیں فریب تمنا دیے جا رہے ہیں ترا نام لے کر جیے جا رہے ہیں گناہ محبت کیے جا رہے ہیں مرے زخم دل کا مقدر تو دیکھو نگاہوں سے ٹانکے دیے جا رہے ہیں نہ کالی گھٹائیں نہ پھولوں کا موسم مگر پینے والے پیے جا رہے ہیں تری محفل ناز سے اٹھنے والے نگاہوں میں تجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    دل میں اب آواز کہاں ہے

    دل میں اب آواز کہاں ہے ٹوٹ گیا تو ساز کہاں ہے آنکھ میں آنسو لب پہ خموشی دل کی بات اب راز کہاں ہے سرو و صنوبر سب کو دیکھا ان کا سا انداز کہاں ہے دل خوابیدہ روح فسردہ وہ جوش آغاز کہاں ہے پردہ بھی جلوہ بن جاتا آنکھ تجلی ساز کہاں ہے بت خانے کا عزم ہے ماہرؔ کعبے کا در باز کہاں ہے

    مزید پڑھیے

    ابھی دشت کربلا میں ہے بلند یہ ترانہ

    ابھی دشت کربلا میں ہے بلند یہ ترانہ یہی زندگی حقیقت یہی زندگی فسانہ ترا کام تن کی پوجا مرا کام من کی سیوا مجھے جستجو یقیں کی تجھے فکر آب و دانہ مرے شوق مضطرب سے ہے رواں نظام ہستی جو ٹھہر گئی محبت تو ٹھہر گیا زمانہ وہ فقیہ کوئے باطن ہے عدوئے دین و ملت کسی خوف دنیوی سے جو تراش دے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2