کس قیامت کی گھٹا چھائی ہے

کس قیامت کی گھٹا چھائی ہے
دل کی ہر چوٹ ابھر آئی ہے


درد بدنام تمنا رسوا
عشق رسوائی ہی رسوائی ہے


اس نے پھر یاد کیا ہے شاید
دل دھڑکنے کی صدا آئی ہے


زلف و رخسار کا منظر توبہ
شام اور صبح کی یکجائی ہے


ہم سے چھپ چھپ کے سنورنے والے
چشم آئینہ تماشائی ہے


دل تمنا سے ہے کتنا بے زار
ٹھوکریں کھا کے سمجھ آئی ہے


تم سے ماہرؔ کو نہیں کوئی گلہ
اس نے قسمت ہی بری پائی ہے