ساقی کی نوازش نے تو اور آگ لگا دی

ساقی کی نوازش نے تو اور آگ لگا دی
دنیا یہ سمجھتی ہے مری پیاس بجھا دی


ایک بار تجھے عقل نے چاہا تھا بھلانا
سو بار جنوں نے تری تصویر دکھا دی


اس بات کو کہتے ہوئے ڈرتے ہیں سفینے
طوفاں کو خودی دامن ساحل نے ہوا دی


مانا کہ میں پامال ہوا زخم بھی کھائے
اوروں کے لیے راہ تو آسان بنا دی


اتنی تو مئے ناب میں گرمی نہیں ہوتی
ساقی نے کوئی چیز نگاہوں سے ملا دی


وہ چین سے بیٹھے ہیں مرے دل کو مٹا کر
یہ بھی نہیں احساس کہ کیا چیز مٹا دی


اے باد چمن تجھ کو نہ آنا تھا قفس میں
تو نے تو مری قید کی میعاد بڑھا دی


لے دے کے ترے دامن امید میں ماہرؔ
ایک چیز جوانی تھی جوانی بھی لٹا دی