Kashif Husain Ghair

کاشف حسین غائر

نئی نسل کے نمائندہ شاعر

One of the most prominent new generation Pakistani poets

کاشف حسین غائر کی غزل

    احوال پوچھیے مرا آزار جانیے

    احوال پوچھیے مرا آزار جانیے زنجیر دیکھ کر نہ گرفتار جانیے افسوس جا چکا ہے گھڑی دیکھنے کا وقت اب دھوپ سے ہی وقت کی رفتار جانیے ہنسئے جناب دیر تک اب اپنے آپ پر کس نے کہا تھا خود کو سمجھ دار جانیے کچھ دیر بیٹھ جائیے دیوار کے قریب کیا کہہ رہا ہے سایۂ دیوار جانیے آساں نہیں ہے ...

    مزید پڑھیے

    کیا کہیں اور دل کے بارے میں

    کیا کہیں اور دل کے بارے میں ہم ملازم ہیں اس ادارے میں اک نظر میرے دیکھ لینے سے کیا کمی آ گئی نظارے میں بس کہ خود پر یقین ہے اپنا کیا کہیں اور خدا کے بارے میں روشنی منتقل ہوئی کیسے اس ستارے سے اس ستارے میں کیا حقیقت ہے کار دنیا کی کیا منافع ہے اس خسارے میں

    مزید پڑھیے

    نہ ہونے کا گماں رکھا ہوا ہے

    نہ ہونے کا گماں رکھا ہوا ہے کہ ہونے میں زیاں رکھا ہوا ہے زمیں کے جسم پر قبریں نہیں ہیں خیال رفتگاں رکھا ہوا ہے سر مژگاں مرے آنسو نہیں ہیں سلوک دوستاں رکھا ہوا ہے یہاں جو اک چراغ زندگی تھا نہ جانے اب کہاں رکھا ہوا ہے یہ دنیا اک طلسم آب و گل ہے یہاں سب رائیگاں رکھا ہوا ہے

    مزید پڑھیے

    خیال و خواب میں آئے ہوئے سے لگتے ہیں

    خیال و خواب میں آئے ہوئے سے لگتے ہیں ہمیں یہ دن بھی بتائے ہوئے سے لگتے ہیں ترے حضور کھڑے ہیں جو سر جھکائے ہوئے زمیں کا بوجھ اٹھائے ہوئے سے لگتے ہیں دیے ہوں پھول ہوں بادل ہوں یا پرندے ہوں یہ سب ہوا کے ستائے ہوئے سے لگتے ہیں ہمارے دل کی طرح شہر کے یہ رستے بھی ہزار بھید چھپائے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    آسماں آنکھ اٹھانے سے کھلا

    آسماں آنکھ اٹھانے سے کھلا راستہ خاک اڑانے سے کھلا زندگی دھوپ میں آنے سے کھلی سایہ دیوار اٹھانے سے کھلا ایسے کھلتا تھا کہاں رنگ جہاں تیری تصویر بنانے سے کھلا بات کیا بات بنانے سے بنی حال کیا حال سنانے سے کھلا کہیں آتا تھا یہاں سناٹا یہ تو رستہ ترے جانے سے کھلا رات کرتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    بنے ہیں کام سب الجھن سے میرے

    بنے ہیں کام سب الجھن سے میرے یہی اطوار ہیں بچپن سے میرے ہوا بھی پوچھنے آتی نہیں اب وہ خوشبو کیا گئی آنگن سے میرے زمیں ہموار ہو کر رہ گئی ہے اڑی ہے دھول وہ دامن سے میرے سنو اس دشت کا ہم زاد ہوں میں یہ واقف ہے اکیلے پن سے میرے ہوائے بے دلی بھی خوب نکلی خلش تک لے اڑی جیون سے میرے

    مزید پڑھیے

    دست بردار زندگی سے ہوا

    دست بردار زندگی سے ہوا اور یہ سودا مری خوشی سے ہوا آگہی بھی نہ کر سکی پورا جتنا نقصان آگہی سے ہوا میں ہوا بھی تو ایک دن روشن اپنے اندر کی روشنی سے ہوا زندگی میں کسک ضروری تھی یہ خلا پر تری کمی سے ہوا دل طرفدار ہجر تھا ہی نہیں اب ہوا بھی تو بے دلی سے ہوا شور جتنا ہے کائنات میں ...

    مزید پڑھیے

    وقت مزدور ہے اجرت دیجے

    وقت مزدور ہے اجرت دیجے ایک اک لمحے کی قیمت دیجے مجھ سے یہ بوجھ نہیں اٹھ سکتا مشورہ کوئی مجھے مت دیجے ہجر کی رات نہیں ڈھلنے کی اب چراغوں کو اجازت دیجے کام کچھ دل کے ہیں کچھ دنیا کے اک ذرا سی مجھے مہلت دیجے دل کو آباد ہی کرنا ہے تو پھر وہی دیوار وہی چھت دیجے دل ہے دنیا تو نہیں ہے ...

    مزید پڑھیے

    حال پوچھا نہ کرے ہاتھ ملایا نہ کرے

    حال پوچھا نہ کرے ہاتھ ملایا نہ کرے میں اسی دھوپ میں خوش ہوں کوئی سایہ نہ کرے میں بھی آخر ہوں اسی دشت کا رہنے والا کیسے مجنوں سے کہوں خاک اڑایا نہ کرے آئنہ میرے شب و روز سے واقف ہی نہیں کون ہوں کیا ہوں مجھے یاد دلایا نہ کرے عین ممکن ہے چلی جائے سماعت میری دل سے کہیے کہ بہت شور ...

    مزید پڑھیے

    ہماری بات کا الٹا اثر نہ پڑ جائے

    ہماری بات کا الٹا اثر نہ پڑ جائے یہ دل کا بوجھ کہیں جان پر نہ پڑ جائے تمام رات سلگتا ہوں اور سوچتا ہوں کسی چراغ کی مجھ پر نظر نہ پڑ جائے اسی خیال سے زخموں کی رونمائی نہ کی کہ امتحاں میں کہیں چارہ گر نہ پڑ جائے پھر اس کے بعد کہاں جائیں گے یہ سایہ پسند ادھر کی دھوپ کسی دن ادھر نہ پڑ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4