خواب بنتا رہوں میں بستر پر
خواب بنتا رہوں میں بستر پر
اور تکیہ کروں مقدر پر
محو پرواز ہے یہ دل اور میں
جاں چھڑکتا ہوں اس کبوتر پر
عمر بھر دیکھتے رہے سائے
دھوپ پڑتی رہی مرے سر پر
خود سے مشکل ہوا سخن کرنا
وقت وہ آ پڑا سخن ور پر
نیند اڑنے لگی ہے آنکھوں سے
دھول جمنے لگی ہے بستر پر
خاک ہونے سے پیشتر غائرؔ
نقش ہو جاؤں کیوں نہ پتھر پر