Kashfi Lucknavi

کشفی لکھنؤی

کشفی لکھنؤی کی غزل

    حوصلے اور سوا ہو گئے پروانوں کے

    حوصلے اور سوا ہو گئے پروانوں کے شعلے ارمان بڑھا دیتے ہیں دیوانوں کے یہی عالم ہے اگر لغزش مستانہ کا ڈھیر لگ جائیں گے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے طور بدلا نہ اگر اہل چمن نے اپنا نظر آئیں گے مناظر یہیں ویرانوں کے آہ مظلوم اگر دل سے نکل جائے گی خاک پر ڈھیر نظر آئیں گے ایوانوں کے قصۂ ...

    مزید پڑھیے

    اس دور میں سب اپنا چلن بھول گئے ہیں

    اس دور میں سب اپنا چلن بھول گئے ہیں حد یہ ہے کہ فن کار بھی فن بھول گئے ہیں صیاد سنائیں تجھے کیوں کر وہی نغمے ہم لہجہ ارباب چمن بھول گئے ہیں ہے اپنی جگہ آج بھی ہر رسم زمانہ لیکن ہمیں آئین وطن بھول گئے ہیں منزل کے نشاں مر کے بھی وہ پا نہ سکیں گے جو لوگ رہ دار و رسن بھول گئے ...

    مزید پڑھیے

    مرا خلوص محبت بھی کامراں نہ ہوا

    مرا خلوص محبت بھی کامراں نہ ہوا وہ ظلم ڈھاتا رہا مجھ پہ مہرباں نہ ہوا جبین عشق جھکی ہے نہ جھک سکے گی کبھی برائے سجدہ اگر تیرا آستاں نہ ہوا ہے بات کیا جو ابھی تک کھلے نہ لالہ و گل خزاں کے بعد بھی شاداب گلستاں نہ ہوا تری ہنسی پہ لٹا دیتے چاند تاروں کو ہمارے زیر اثر آج آسماں نہ ...

    مزید پڑھیے

    کرتے رہیں وابستہ ان سے چاہے جو افسانے لوگ

    کرتے رہیں وابستہ ان سے چاہے جو افسانے لوگ عشق میں رسوائی کی پروا کرتے ہیں کب دیوانے لوگ کس کو صدائیں دیتا ہے تو شہر تمنا میں اے دل کون یہاں ہے تیرا ساتھی سبھی تو ہیں بیگانے لوگ کس کو سنائیں حال تباہی کس کو دکھائیں زخم جگر دور ستم ہے رحم کہاں اب ظلم کے ہیں دیوانے لوگ شیخ و برہمن ...

    مزید پڑھیے

    جب اپنے غم کا فسانہ انہیں سناتے ہیں

    جب اپنے غم کا فسانہ انہیں سناتے ہیں زمانہ ہنستا ہے ہم پر وہ مسکراتے ہیں مری نگاہ سے جب وہ نظر ملاتے ہیں دل غریب کی دنیا اجاڑ جاتے ہیں ہماری آنکھوں نے ہر انقلاب دیکھا ہے زمانہ والے ہمیں کس لیے ڈراتے ہیں یہ کیسا جشن مناتے ہیں گلستاں والے گلوں کو توڑتے ہیں آشیاں جلاتے ہیں زمانے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2