Kareem Darvesh

کریم درویش

  • 1967

کریم درویش کی غزل

    چاہتے ہو جو کوئی کھنڈر دیکھنا

    چاہتے ہو جو کوئی کھنڈر دیکھنا دوستو اک نظر میرا گھر دیکھنا لب ہلائے ہیں میں نے خلاف ستم اب بلا آئے گی میرے سر دیکھنا پہلے گھر کے چراغوں پہ رکھو نظر بعد میں تم یہ شمس و قمر دیکھنا ایسا لگتا ہے میرے مقدر میں ہے دامن زندگی خوں سے تر دیکھنا دے رہے ہو ہوا یاد رکھنا مگر شعلہ بن جائے ...

    مزید پڑھیے

    رنگینئ حیات کے منظر سے دور ہے

    رنگینئ حیات کے منظر سے دور ہے دل اپنا روشنئ مقدر سے دور ہے یہ سچ ہے کوئی دوست نہیں زندگی کے ساتھ یہ کیا ہے کم کہ فتنۂ محشر سے دور ہے الفاظ کا مہکتا ہے گلدان ہر گھڑی افکار کا اجالا مگر سر سے دور ہے گمراہیوں سے اس کو بچا لے خدائے پاک یہ قوم آج درس پیمبر سے دور ہے میں اپنا ہاتھ ...

    مزید پڑھیے

    بتائیں کیا تمہیں خون تمنا روز ہوتا ہے

    بتائیں کیا تمہیں خون تمنا روز ہوتا ہے میاں چھلنی غریبوں کا کلیجہ روز ہوتا ہے کبھی کلیوں کی دل سوزی کبھی ہے قتل پھولوں کا تمہیں بتلاؤ اس گلشن میں یہ کیا روز ہوتا ہے یہاں مفلس اجالے کی کرن کو بھی ترستے ہیں مگر کہنے کو بستی میں اجالا روز ہوتا ہے یہ کہہ دو قائدوں سے اب یہاں زحمت نہ ...

    مزید پڑھیے

    لب پہ تبسم روز سجانا پڑتا ہے

    لب پہ تبسم روز سجانا پڑتا ہے غم اپنا اس طرح چھپانا پڑتا ہے ایسا بھی ہوتا ہے اصولی جنگوں میں ہار کو بھی سینے سے لگانا پڑتا ہے کھا کر روکھی-سوکھی ننھے بچوں کو پیٹ کا شعلہ روز بجھانا پڑتا ہے جوڑ رہے ہیں پیسہ پیسہ سب لیکن سب دنیا میں چھوڑ کے جانا پڑتا ہے ہم مزدوروں کی قسمت میں ...

    مزید پڑھیے