رنگینئ حیات کے منظر سے دور ہے
رنگینئ حیات کے منظر سے دور ہے
دل اپنا روشنئ مقدر سے دور ہے
یہ سچ ہے کوئی دوست نہیں زندگی کے ساتھ
یہ کیا ہے کم کہ فتنۂ محشر سے دور ہے
الفاظ کا مہکتا ہے گلدان ہر گھڑی
افکار کا اجالا مگر سر سے دور ہے
گمراہیوں سے اس کو بچا لے خدائے پاک
یہ قوم آج درس پیمبر سے دور ہے
میں اپنا ہاتھ سوئے فلک تو بڑھائے ہوں
یہ اور بات ہے مہ و اختر سے دور ہے
مزدور ہوں میں کرتا ہوں محنت تمام دن
خوشحالی پھر بھی میرے مقدر سے دور ہے
درویشؔ اپنی ذات سے تم کیوں ہو مطمئن
کیا گردش حیات کے تیور سے دور ہے