Karamat Bukhari

کرامت بخاری

کرامت بخاری کی غزل

    بے مقصد جب شور مچایا جاتا ہے

    بے مقصد جب شور مچایا جاتا ہے اکثر اس میں ظلم چھپایا جاتا ہے پتے خود ہی ٹہنی چھوڑ کے گرتے ہیں موسم پر الزام لگایا جاتا ہے صدیوں پیاسی اس دھرتی کے سینے پر قطرہ قطرہ مینہ برسایا جاتا ہے لفظوں کے انبار لگا کر کاغذ پر معنی کو اس میں دفنایا جاتا ہے اس دنیا میں جرم چھپانے کی خاطر جرم ...

    مزید پڑھیے

    دنیا کی اس بھیڑ میں کھو گئے جانے کتنے لوگ

    دنیا کی اس بھیڑ میں کھو گئے جانے کتنے لوگ ان آنکھوں سے اوجھل ہو گئے جانے کتنے لوگ صدمے سہتے سہتے ساری عمریں بیت گئیں اور زمیں کو اوڑھ کے سو گئے جانے کتنے لوگ کچھ لوگوں کے گھر میں اتری خوشیوں کی بارات اور غموں کے بوجھ کو ڈھو گئے جانے کتنے لوگ وقت کے اس بہتے دریا میں خاموشی کے ...

    مزید پڑھیے

    دہکتی خواہشوں میں جل رہا ہوں

    دہکتی خواہشوں میں جل رہا ہوں کبھی قاتل کبھی مقتل رہا ہوں مرا پیچھا نہ کر اے زندگانی میں راہ رفتگاں پہ چل رہا ہوں میں ایسا اژدہا ہوں خواہشوں کا خود اپنا خون پی کر پل رہا ہوں رہا ہوں واقف راز حقیقت بظاہر بے خبر پاگل رہا ہوں ردائے تشنگی اوڑھے ہوئے میں سمندر کے کنارے چل رہا ...

    مزید پڑھیے

    ملنے کی جب بات ہوئی تھی

    ملنے کی جب بات ہوئی تھی تنہائی بھی پاس کھڑی تھی آنکھوں میں طوفان آیا تھا دل کی بستی ڈوب گئی تھی میں کہ تیرے دھیان میں گم تھا دنیا مجھ کو ڈھونڈھ رہی تھی ہم دونوں خاموش کھڑے تھے ساون کی پر زور جھڑی تھی کوسوں دور مجھے جانا تھا پاؤں میں زنجیر پڑی تھی تم سے جدائی کا کیا رونا یہ تو ...

    مزید پڑھیے

    آج خلوت میں خدا یاد آیا

    آج خلوت میں خدا یاد آیا پھر مجھے حرف دعا یاد آیا یاد نہ آنے کا وعدہ کر کے وہ تو پہلے سے سوا یاد آیا جب کہیں پھول مہکتے دیکھے پھر ترا بند قبا یاد آیا جب گھٹائیں کبھی گھر کر آئیں کیا بتائیں ہمیں کیا یاد آیا یاد آئی ترے چہرے کی چمک ظلمت شب میں دیا یاد آیا پیاس میں جب ہوئی پانی کی ...

    مزید پڑھیے

    خودی کم زندگی میں غم بہت ہیں

    خودی کم زندگی میں غم بہت ہیں یہی ہے امتحاں تو ہم بہت ہیں ہمارا درد چہرے سے عیاں ہے ہمارے درد کے محرم بہت ہیں ہوئی ہموار کس سے راہ ہستی ابھی تک اس میں پیچ و خم بہت ہیں ضروری تو نہیں اک فصل گل ہو جنوں کے اور بھی موسم بہت ہیں بہت ہیں رونے والے گلستاں پر شریک گریۂ شبنم بہت ہیں مری ...

    مزید پڑھیے

    انصاف جو نادار کے گھر تک نہیں پہنچا

    انصاف جو نادار کے گھر تک نہیں پہنچا سمجھو کہ ابھی ہاتھ ثمر تک نہیں پہنچا مژگاں پہ رکے ہیں ابھی ڈھلکے نہیں آنسو یہ سوچ کا سیلاب سفر تک نہیں پہنچا کچھ لوگ ابھی خیر کی خواہش کے امیں ہیں دستار کا جھگڑا ابھی سر تک نہیں پہنچا پرواز میں تھا امن کا معصوم پرندہ سنتے ہیں کہ بے چارہ شجر ...

    مزید پڑھیے

    لب پہ کسی اجڑی ہوئی جاگیر کا ماتم

    لب پہ کسی اجڑی ہوئی جاگیر کا ماتم ہر لفظ مرا حلقۂ زنجیر کا ماتم دل میں کہیں بجھتے ہوئے ارمانوں کا نوحہ آنکھوں میں کسی یاد کی تصویر کا ماتم ہر سوچ میں سنگین فضاؤں کا فسانہ ہر فکر میں شامل ہوا تحریر کا ماتم جب سے ہوا معلوم کہ یہ چاند ہے پتھر کرتا ہوں میں اب چاند کی تسخیر کا ...

    مزید پڑھیے

    یہ بادل غم کے موسم کے جو چھٹ جاتے تو اچھا تھا

    یہ بادل غم کے موسم کے جو چھٹ جاتے تو اچھا تھا یہ پھیلائے ہوئے منظر سمٹ جاتے تو اچھا تھا یہ دل تاریک حجرہ ہے اسے روشن کرو آ کر یہ دن تاریکیوں والے جو کٹ جاتے تو اچھا تھا مقام دل کہیں آبادیوں سے دور ہے شاید مگر یہ فاصلے دل کے سمٹ جاتے تو اچھا تھا یہ دور حبس ٹوٹے تو ہم اپنا بادباں ...

    مزید پڑھیے

    جس شجر پر ثمر نہیں ہوتا

    جس شجر پر ثمر نہیں ہوتا اس کو پتھر کا ڈر نہیں ہوتا آنکھ میں بھی چمک نہیں ہوتی جب وہ پیش نظر نہیں ہوتا مے کدے میں یہ ایک خوبی ہے ناصحا تیرا ڈر نہیں ہوتا اب تو بازار بھی ہیں بے رونق کوئی یوسف ادھر نہیں ہوتا جو صدف ساحلوں پہ رہ جائے اس میں کوئی گہر نہیں ہوتا آہ تو اب بھی دل سے ...

    مزید پڑھیے