Karamat Bukhari

کرامت بخاری

کرامت بخاری کی نظم

    اگر تم بیچنا چاہو

    اگر تم بیچنا چاہو ادائیں بھی وفائیں بھی حسیں خوابوں کے رنگوں کی ردائیں بھی یہ دنیا ہے یہاں آواز بکتی ہے یہاں تصویر بکتی ہے یہاں پر حرف کی حرمت یہاں تحریر بکتی ہے یہ بازار جہاں اک بیکراں گہرا سمندر ہے یہاں پر کشتیاں ساحل پہ آ کر ڈوب جاتی ہیں مسافر مر بھی جاتے ہیں مگر رونق نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کہ خواب تھا بس تمہارا آنا

    تمہاری آنکھیں خوشی کی خواہش لیے ہوئی تھیں تمہاری سوچوں میں عہد ماضی کی سلوٹیں تھیں تمہارے گیسو گھمرتی گھرتی گھٹاؤں کے کچھ گھنیرے بادل بنے ہوئے تھے قدم بڑھائے نظر جھکائے بدن بدن چرائے آ رہی تھی ہوائیں بھی گنگنا رہی تھیں کلی کلی مسکرا رہی تھی خزاں رسیدہ چمن میں جیسے بہار چپکے سے ...

    مزید پڑھیے

    دشت اجنبیت میں

    دشت اجنبیت میں آشنائی کی چھاؤں ساتھ چھوڑ جائے تو ہر طرف بگولوں کا رقص گھیر لیتا ہے دشت اجنبیت میں آشنائی کی چھاؤں ساتھ چھوڑ جائے تو یاس گھیر لیتی ہے آس کے جزیرے کو اور اس جزیرے کو کب کسی نے دیکھا ہے دشت اجنبیت میں آشنائی کی چھاؤں ساتھ چھوڑ جائے تو بادلوں کے سائے بھی سرگراں سے ...

    مزید پڑھیے