Karamat Ali Karamat

کرامت علی کرامت

کرامت علی کرامت کی غزل

    گلاب مانگے ہے نے ماہتاب مانگے ہے

    گلاب مانگے ہے نے ماہتاب مانگے ہے شعور فن تو لہو کی شراب مانگے ہے وہ اس کا لطف و کرم مجھ غریق عصیاں سے گناہ مانگے ہے اور بے حساب مانگے ہے ہوس کی باڑھ ہر اک باندھ توڑنا چاہے نظر کا حسن مگر انتخاب مانگے ہے کہاں ہو کھوئے ہوئے لمحو! لوٹ کر آؤ حیات عمر گزشتہ کا باب مانگے ہے مرے کلام ...

    مزید پڑھیے

    دل کا ہر ایک زخم گہرا ہے

    دل کا ہر ایک زخم گہرا ہے اس سے ہر وقت خون رستا ہے دم لیا ہم نے غم کے سائے میں ورنہ ہر سمت خشک صحرا ہے اس کو کس طرح میں بھلا دیتا جس کا ہر دم خیال آتا ہے بجھ گیا جب سے اپنے دل کا چراغ چاندنی کا بھی رنگ پھیکا ہے اک سہارا ملا ہے غم کا ہمیں ورنہ دنیا میں کون کس کا ہے یوں تو کونین میرے ...

    مزید پڑھیے

    پیغام شباب آ رہا ہے

    پیغام شباب آ رہا ہے شاخوں پہ گلاب آ رہا ہے جذبے کا پرندہ کیوں نہ تڑپے راہوں میں سراب آ رہا ہے ہشیار رہے خرد کی محفل اک خانہ خراب آ رہا ہے سرشار ہیں وقت کے کٹورے جام مئے ناب آ رہا ہے اس طرح شفق کو نیند آئی احساس کو خواب آ رہا ہے انسان ہے بے حیا کچھ ایسا حیواں کو حجاب آ رہا ...

    مزید پڑھیے

    وہ سچ کے چہرے پہ ایسا نقاب چھوڑ گیا

    وہ سچ کے چہرے پہ ایسا نقاب چھوڑ گیا رخ حیات پہ جیسے عذاب چھوڑ گیا نتیجہ کوشش پیہم کا یوں ہوا الٹا میں آسمان پہ موج سراب چھوڑ گیا وہ کون تھا جو مری زندگی کے دفتر سے حروف لے گیا خالی کتاب چھوڑ گیا بہار بن کے وہ آیا گیا بھی شان کے ساتھ کہ زرد پتوں پہ رنگ گلاب چھوڑ گیا مرے لہو میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2