Karamat Ali Karamat

کرامت علی کرامت

کرامت علی کرامت کی غزل

    ہستی کو جمال دے رہا ہوں

    ہستی کو جمال دے رہا ہوں میں تیری مثال دے رہا ہوں معنی پہ چڑھا کے غازۂ نو لفظوں کو خیال دے رہا ہوں ماضی پہ نگہ ہے اپنی گہری فردا کو میں حال دے رہا ہوں مشکل بھی ہے اور سہل بھی ہے ایسا میں سوال دے رہا ہوں شیشہ گری ہے عجیب میری آئینے کو بال دے رہا ہوں ماحول میں ہے کچھ ایسی ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے جب درد بھری اپنی کہانی لکھی

    ہم نے جب درد بھری اپنی کہانی لکھی لوگ کہنے لگے روداد پرانی لکھی میں نے اک پیڑ سمندر کے جزیرے سے لیا اور چٹان پہ پانی کی روانی لکھی اجنبی طرز لئے میں نہیں آیا ہوں یہاں داستاں اپنی تمہاری ہی زبانی لکھی چشم محبوب کو نرگس کا لقب تو نے دیا میں نے شعروں میں مگر ''رات کی رانی'' ...

    مزید پڑھیے

    جو نام سب سے ہو پیارا اسے مکان پہ لکھ

    جو نام سب سے ہو پیارا اسے مکان پہ لکھ بدن کی حد سے گزر اور اس کو جان پہ لکھ بجا ہے کرتے ہیں پانی پہ دستخط سب لوگ جو حوصلہ ہے تو نام اپنا آسمان پہ لکھ تو لکھنے بیٹھا ہے میرے خلوص کا قصہ یقین پر نہیں لکھتا نہ لکھ گمان پہ لکھ صحیفۂ دل بیتاب کی نئی تفسیر قلم اٹھا اور اسے وقت کی زبان ...

    مزید پڑھیے

    جو لمحے ٹوٹ چکے ان کو جوڑتے کیوں ہو

    جو لمحے ٹوٹ چکے ان کو جوڑتے کیوں ہو یہ جڑ گئے تو انہیں پھر سے توڑتے کیوں ہو مزاج شمس بدل جائے گا تو کیا ہوگا جو ذرے سوئے ہیں ان کو جھنجھوڑتے کیوں ہو کب آنسوؤں سے مٹا ہے شگاف آئینہ جو شیشہ ٹوٹ چکا اس کو جوڑتے کیوں ہو یہ ریت ہے یہاں مٹ جائیں گے تمام نقوش تم اپنا نقش قدم اس پہ ...

    مزید پڑھیے

    پہاڑ جو کھڑا ہوا تھا خواب سا خیال سا

    پہاڑ جو کھڑا ہوا تھا خواب سا خیال سا بکھر گیا ہے راستے میں گرد ماہ و سال سا نظر کا فرق کہئے اس کو ہجر ہے وصال سا عروج کہہ رہے ہیں جس کو ہے وہی زوال سا تمہارا لفظ سچ کا ساتھ دے سکا نہ دور تک مثال جس کی دے رہے ہو ہے وہ بے مثال سا خلوص کے ہرن کو ڈھونڈ کر ریا کے شہر میں مرے عزیز کر رہے ...

    مزید پڑھیے

    یہ کون کہتا ہے تو حلقۂ نقاب میں آ؟

    یہ کون کہتا ہے تو حلقۂ نقاب میں آ؟ شعور رنگ وفا بن کے آفتاب میں آ فضا کو تو نے معطر کیا تو کیا حاصل؟ مزا تو جب ہے کہ پھر لوٹ کر گلاب میں آ میں لفظ لفظ میں تجھ کو تلاش کرتا ہوں سوال میں نہیں آتا نہ آ جواب میں آ گھٹا گھٹا سا نہ رہ تجربوں کے محبس میں صریر وقت کی راہوں سے تو کتاب میں ...

    مزید پڑھیے

    کہتے ہیں لوگ یہ کہ بڑی دل نشیں ہے شام

    کہتے ہیں لوگ یہ کہ بڑی دل نشیں ہے شام لیکن مجھے یہ لگتا ہے اندوہ گیں ہے شام یہ اک چھلاوا ہے کہ پہاڑوں کی آگ ہے وہم و گماں کی شکل میں جیسے یقیں ہے شام کیا اس کو ڈھونڈتے ہو خلاؤں کے درمیاں تم اپنے دل میں کھوج کے دیکھو یہیں ہے شام یہ کیسی مچھلیاں ہیں چمکتی ہیں رات بھر یہ جھیل ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    روبرو غم کے یہ تقدیر کہاں سے آئی

    روبرو غم کے یہ تقدیر کہاں سے آئی اور ہتھیلی کی یہ تحریر کہاں سے آئی دل کے گوشے میں جسے میں نے چھپا رکھا تھا تیرے البم میں وہ تصویر کہاں سے آئی دبی خواہش کا تھا اظہار تماشہ گویا خواب تھا خواب یہ تعبیر کہاں سے آئی فن کو میدان کھلا چاہئے جینے کے لئے رقص کی راہ میں زنجیر کہاں سے ...

    مزید پڑھیے

    ہاتھ آ گیا ہے جب سے شعور خودی کا سانپ

    ہاتھ آ گیا ہے جب سے شعور خودی کا سانپ سینے پہ لوٹتا ہے غم زندگی کا سانپ اپنے بدن سے خول انا کا اتار کر پھنکارتا ہے شام و سحر آگہی کا سانپ میں کھیلتا ہوں اس سے مگر جانتا ہوں یہ اک دن مجھے ڈسے گا نئی روشنی کا سانپ کیوں من کا مور پنکھ نہ اپنے سمیٹ لے آنگن میں کھیلتا ہے غم عاشقی کا ...

    مزید پڑھیے

    مری نگاہ میں لمحوں کا خواب اترا تھا

    مری نگاہ میں لمحوں کا خواب اترا تھا زمیں کی سطح پہ یا ماہتاب اترا تھا وہ خاص لمحہ جسے عمر جاوداں کہئے وہ بن کے وصل کا جام شراب اترا تھا یہ کیسی چوک ہوئی بے خودی میں ہم سے کہ بس تمام عمر مسلسل عذاب اترا تھا مقابلہ کیا جس پیڑ نے ہواؤں کا اسی پہ برق تپاں کا عتاب اترا تھا ندی جو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2