پیغام شباب آ رہا ہے

پیغام شباب آ رہا ہے
شاخوں پہ گلاب آ رہا ہے


جذبے کا پرندہ کیوں نہ تڑپے
راہوں میں سراب آ رہا ہے


ہشیار رہے خرد کی محفل
اک خانہ خراب آ رہا ہے


سرشار ہیں وقت کے کٹورے
جام مئے ناب آ رہا ہے


اس طرح شفق کو نیند آئی
احساس کو خواب آ رہا ہے


انسان ہے بے حیا کچھ ایسا
حیواں کو حجاب آ رہا ہے


تاروں کی نگاہ کیوں نہ چمکے
چہرے پہ نقاب آ رہا ہے


کورا ہے یہ حاشیہ خودی کا
ہستی کا وہ باب آ رہا ہے


انگلی میں ابھر رہی ہے سوزش
ہاتھوں میں رباب آ رہا ہے


پوچھا جو سوال آسماں سے
دھرتی سے جواب آ رہا ہے


گھلتا ہے دماغ اے کرامتؔ
سر پر جو عذاب آ رہا ہے