Kanti Mohan Soz

کانتی موہن سوز

کانتی موہن سوز کی غزل

    معرکہ ختم ہوا جنگ ابھی جاری ہے

    معرکہ ختم ہوا جنگ ابھی جاری ہے دل کی مانیں کہ خرد کی یہی دشواری ہے کوئی پتا نہیں ہلتا ہے نہ کھلتی ہے زباں آہ پھر سے کسی طوفان کی تیاری ہے کیوں نہ یہ دیکھ کے بینائی دغا دے جائے شمس پر بھی ابھی ظلمت کا فسوں طاری ہے اب یہ حسرت بھی لئے جاتے ہیں دل کی دل میں یہ تو کہہ لیتے ترا تیر بہت ...

    مزید پڑھیے

    سانسوں سے یہ کہہ دو کہ ٹھہر جائیں کسی دن

    سانسوں سے یہ کہہ دو کہ ٹھہر جائیں کسی دن اس دل پہ کرم اتنا تو فرمائیں کسی دن یہ دل کہ جسے روند کے ہر لمحہ گیا ہے پرچم سا اٹھا کر اسے لہرائیں کسی دن ممکن ہے مرے ظرف کا تخمینہ لگانا اس قافلۂ درد کو ٹھہرائیں کسی دن اس پہ بھی گراں گزرے گی یہ خوئے جفا سوزؔ گر یار بھی اپنی پہ اتر آئیں ...

    مزید پڑھیے

    یہ کس نے ڈال کانٹوں کی قریب آشیاں رکھ دی

    یہ کس نے ڈال کانٹوں کی قریب آشیاں رکھ دی کہاں کی چیز تھی نادان نے دیکھو کہاں رکھ دی اب اس دیوانگی پر کیوں نہ وارے جائیں ہم یارو کہ جس نے خار کے منہ میں شگوفے کی زباں رکھ دی زمانے کی نظر میں خار و خس تھے چار تنکے تھے انہیں پر دل کے کاری گر نے بنیاد جہاں رکھ دی ہم اپنی بے خودی میں ...

    مزید پڑھیے

    ہم سے کس کا کام بنے گا کوئی کیا لے جائے گا

    ہم سے کس کا کام بنے گا کوئی کیا لے جائے گا اپنا چھپر پھونکنے والا پاس ہمارے آئے گا ہم ہیں نگوڑے ہم ہیں بھگوڑے ہم ہیں نکمے ہم کاہل جس دم محفل رنگ پہ ہوگی ہم سے رہا نہ جائے گا غنچہ غنچہ زہر آلودہ بوٹا بوٹا ساغر سم اس گلشن میں عشق کا نغمہ چھیڑ تو مانا جائے گا وائے قیامت سر ہے سلامت ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ کھولی ہے تو یہ دیکھ کے پچھتائے ہیں

    آنکھ کھولی ہے تو یہ دیکھ کے پچھتائے ہیں لوگ غزلوں سے بہت دور نکل آئے ہیں وہ جو دکھ سہتے تھے اف تک بھی نہیں کرتے تھے آج صف باندھ کے میداں میں اتر آئے ہیں خون ہی خون نظر آتا ہے تا حد نظر کس کے نقش کف پا عرش پہ لہرائے ہیں آج یہ سوچ کے لرزاں ہے جفا جو کا غرور قمقمے کس لیے دھرتی پہ اتر ...

    مزید پڑھیے

    مے پیتے ہیں دن رات پیا جائے ہے کچھ اور

    مے پیتے ہیں دن رات پیا جائے ہے کچھ اور سنتے ہیں کہ ایسے میں کیا جائے ہے کچھ اور گر خوف نہیں ہے تو کوئی ضبط ہے یارو دل کہتا ہے کچھ اور کہا جائے ہے کچھ اور اسباب مرا دیکھ کے ہنسنے لگے احباب کیا وقت سفر ساتھ لیا جائے ہے کچھ اور منزل ہے بہت پاس بہت پاس بہت پاس اب دیکھیے کس کس سے چلا ...

    مزید پڑھیے

    یہ نشست غم ہے اس کی کوئی ریت تو نبھاؤ

    یہ نشست غم ہے اس کی کوئی ریت تو نبھاؤ میں غزل سنا رہا ہوں مجھے چھوڑ کر نہ جاؤ شب تار کا فسانہ کبھی مختصر بھی ہوگا کوئی شمع تو جلاؤ کوئی جام تو اٹھاؤ یہ غرور تیغ قاتل کبھی سرنگوں بھی ہوگا سر بزم چوٹ کھا کر سر راہ مسکراؤ تمہیں سر بلند پا کر چلی جائے سر جھکا کر کبھی مرگ ناگہاں سے ...

    مزید پڑھیے

    اے زیست ہمیں تنگ نہ کر اس سے زیادہ

    اے زیست ہمیں تنگ نہ کر اس سے زیادہ اتنا تو سہا ہم نے مگر اس سے زیادہ ہم خود بھی کمر باندھ کے تیار ہیں قاصد کیا ہوگی ترے پاس خبر اس سے زیادہ یہ دل کی دعا ہے اسے کچھ کم نہ سمجھیے ہوگا ابھی کچھ اور اثر اس سے زیادہ یہ سوچ کے کل رات ہمیں نیند نہ آئی کل ہوگی گراں اور سحر اس سے ...

    مزید پڑھیے