سانسوں سے یہ کہہ دو کہ ٹھہر جائیں کسی دن

سانسوں سے یہ کہہ دو کہ ٹھہر جائیں کسی دن
اس دل پہ کرم اتنا تو فرمائیں کسی دن


یہ دل کہ جسے روند کے ہر لمحہ گیا ہے
پرچم سا اٹھا کر اسے لہرائیں کسی دن


ممکن ہے مرے ظرف کا تخمینہ لگانا
اس قافلۂ درد کو ٹھہرائیں کسی دن


اس پہ بھی گراں گزرے گی یہ خوئے جفا سوزؔ
گر یار بھی اپنی پہ اتر آئیں کسی دن