Kamal Nadim

کمال نادم

کمال نادم کی غزل

    روز اک فتنہ اٹھاتے کیوں ہو

    روز اک فتنہ اٹھاتے کیوں ہو ظلم لوگوں پہ یوں ڈھاتے کیوں ہو نسل آدم سے تعلق رکھ کر خون انساں کا بہاتے کیوں ہو ہیں جو معصوم فرشتے ان کو پاٹھ نفرت کا پڑھاتے کیوں ہو جب اجالے کے محافظ ٹھہرے پھر چراغوں کو بجھاتے کیوں ہو پڑ گیا قحط ہے کیا پانی کا خون سے پیاس بجھاتے کیوں ہو رنجشیں کم ...

    مزید پڑھیے

    سنتے ہیں لہو سے وہ تصویر بناتا ہے

    سنتے ہیں لہو سے وہ تصویر بناتا ہے چن چن کے وہ دھرتی کو کشمیر بناتا ہے ہر دن وہ ہڑپتا ہے اوروں کی زمینوں کو پر روز نئی اپنی جاگیر بناتا ہے ہاتھوں میں نہیں اس کے ہے کوئی ہنر مندی دعویٰ ہے مگر اس کا تقدیر بناتا ہے اس کے ہی حلیفوں نے مشہور کیا ہے یہ وہ زہر ہلاہل کو اکسیر بناتا ہے دل ...

    مزید پڑھیے