سنتے ہیں لہو سے وہ تصویر بناتا ہے
سنتے ہیں لہو سے وہ تصویر بناتا ہے
چن چن کے وہ دھرتی کو کشمیر بناتا ہے
ہر دن وہ ہڑپتا ہے اوروں کی زمینوں کو
پر روز نئی اپنی جاگیر بناتا ہے
ہاتھوں میں نہیں اس کے ہے کوئی ہنر مندی
دعویٰ ہے مگر اس کا تقدیر بناتا ہے
اس کے ہی حلیفوں نے مشہور کیا ہے یہ
وہ زہر ہلاہل کو اکسیر بناتا ہے
دل پر تو نہیں چلتا کچھ زور کبھی اس کا
ذہنوں کے جکڑنے کو زنجیر بناتا ہے
نادمؔ تو دوانہ ہے کیا بات کریں اس کی
نازک سی غزل کو بھی شمشیر بناتا ہے