Kaif Bhopali

کیف بھوپالی

ممتاز مقبول شاعر اور فلم نغمہ نگار۔ فلم’پاکیزہ‘ کے گیتوں کے لئے مشہور

Popular poet and lyricist famous for his lyrics in film Paakeeza.

کیف بھوپالی کی غزل

    تیرا چہرہ کتنا سہانا لگتا ہے

    تیرا چہرہ کتنا سہانا لگتا ہے تیرے آگے چاند پرانا لگتا ہے ترچھے ترچھے تیر نظر کے لگتے ہیں سیدھا سیدھا دل پہ نشانا لگتا ہے آگ کا کیا ہے پل دو پل میں لگتی ہے بجھتے بجھتے ایک زمانا لگتا ہے پاؤں نا باندھا پنچھی کا پر باندھا آج کا بچہ کتنا سیانا لگتا ہے سچ تو یہ ہے پھول کا دل بھی ...

    مزید پڑھیے

    جب ہمیں مسجد جانا پڑا ہے

    جب ہمیں مسجد جانا پڑا ہے راہ میں اک مے خانہ پڑا ہے جائیے اب کیوں جانب صحرا شہر تو خود ویرانہ پڑا ہے ہم نہ پئیں گے بھیک کی ساقی لے یہ ترا پیمانہ پڑا ہے حرج نہ ہو تو دیکھتے چلئے راہ میں اک دیوانہ پڑا ہے ختم ہوئی سب رات کی محفل ایک پر پروانہ پڑا ہے

    مزید پڑھیے

    بیمار محبت کی دوا ہے کہ نہیں ہے

    بیمار محبت کی دوا ہے کہ نہیں ہے میرے کسی پہلو میں قضا ہے کہ نہیں ہے سنتا ہوں اک آہٹ سی برابر شب وعدہ جانے ترے قدموں کی صدا ہے کہ نہیں ہے سچ ہے کہ محبت میں ہمیں موت نے مارا کچھ اس میں تمہاری بھی خطا ہے کہ نہیں ہے مت دیکھ کہ پھرتا ہوں ترے ہجر میں زندہ یہ پوچھ کہ جینے میں مزہ ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    جھوم کے جب رندوں نے پلا دی

    جھوم کے جب رندوں نے پلا دی شیخ نے چپکے چپکے دعا دی ایک کمی تھی تاج محل میں میں نے تری تصویر لگا دی آپ نے جھوٹا وعدہ کر کے آج ہماری عمر بڑھا دی ہائے یہ ان کا طرز محبت آنکھ سے بس اک بوند گرا دی

    مزید پڑھیے

    نہ آیا مزہ شب کی تنہائیوں میں

    نہ آیا مزہ شب کی تنہائیوں میں سحر ہو گئی چند انگڑائیوں میں نہ رنگینیوں میں نہ رعنائیوں میں نظر گھر گئی اپنی پرچھائیوں میں مجھے مسکرا مسکرا کر نہ دیکھو مرے ساتھ تم بھی ہو رسوائیوں میں غضب ہو گیا ان کی محفل سے آنا گھرا جا رہا ہوں تماشائیوں میں محبت ہے یا آج ترک محبت ذرا مل تو ...

    مزید پڑھیے

    کام یہی ہے شام سویرے

    کام یہی ہے شام سویرے تیری گلی کے سو سو پھیرے سامنے وہ ہیں زلف بکھیرے کتنے حسیں ہیں آج اندھیرے ہم تو ہیں تیرے پوجنے والے پاؤں نہ پڑوا تیرے میرے دل کو چرایا خیر چرایا آنکھ چرا کر جا نہ لٹیرے

    مزید پڑھیے

    جس پہ تری شمشیر نہیں ہے

    جس پہ تری شمشیر نہیں ہے اس کی کوئی توقیر نہیں ہے اس نے یہ کہہ کر پھیر دیا خط خون سے کیوں تحریر نہیں ہے زخم جگر میں جھانک کے دیکھو کیا یہ تمہارا تیر نہیں ہے زخم لگے ہیں کھلنے گلچیں یہ تو تری جاگیر نہیں ہے شہر میں یوم امن ہے واعظ آج تری تقریر نہیں ہے اودی گھٹا تو واپس ہو جا آج ...

    مزید پڑھیے

    اللہ ی کس کا ماتم ہے وہ زلف جو بکھری جاتی ہے

    اللہ ی کس کا ماتم ہے وہ زلف جو بکھری جاتی ہے آنکھیں ہے کہ بھیگی جاتی ہیں دنیا ہے کہ ڈوبی جاتی ہے کچھ بیتے دنوں کی یادیں ہیں اور چاروں طرف تنہائی سی مہماں ہیں کہ آئے جاتے ہیں محفل ہے کہ اجڑی جاتی ہے تدبیر کے ہاتھوں کچھ نہ ہوا تقدیر کی مشکل ہل نہ ہوئی ناخن ہیں کہ ٹوٹے جاتے ہیں گتھی ...

    مزید پڑھیے

    جسم پر باقی یہ سر ہے کیا کروں

    جسم پر باقی یہ سر ہے کیا کروں دست قاتل بے ہنر ہے کیا کروں چاہتا ہوں پھونک دوں اس شہر کو شہر میں ان کا بھی گھر ہے کیا کروں وہ تو سو سو مرتبہ چاہیں مجھے میری چاہت میں کسر ہے کیا کروں پاؤں میں زنجیر کانٹے آبلے اور پھر حکم سفر ہے کیا کروں کیفؔ کا دل کیفؔ کا دل ہے مگر وہ نظر پھر وہ ...

    مزید پڑھیے

    در و دیوار پہ شکلیں سی بنانے آئی

    در و دیوار پہ شکلیں سی بنانے آئی پھر یہ بارش میری تنہائی چرانے آئی زندگی باپ کی مانند سزا دیتی ہے رحم دل ماں کی طرح موت بچانے آئی آج کل پھر دل برباد کی باتیں ہیں وہی ہم تو سمجھے تھے کہ کچھ عقل ٹھکانے آئی دل میں آہٹ سی ہوئی روح میں دستک گونجی کس کی خوش بو یہ مجھے میرے سرہانے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3