Jurat Qalandar Bakhsh

جرأت قلندر بخش

اپنی شاعری میں محبوب کے ساتھ معاملہ بندی کےمضمون کے لیے مشہور،نوجوانی میں بینائی سے محروم ہوگئے

Known for depicting romantic encounters with the beloved in lurid details. Lost his eye sight in the prime of youth

جرأت قلندر بخش کی غزل

    در تک اب چھوڑ دیا گھر سے نکل کر آنا

    در تک اب چھوڑ دیا گھر سے نکل کر آنا یا وہ راتوں کو سدا بھیس بدل کر آنا ہمدمو یہ کوئی رونا ہے کہ طوفان ہے آہ دیکھیو چشم سے دریا کا ابل کر آنا قصد جب جانے کا کرتا ہوں میں اس شوخ کے پاس تیغ ابرو یہ کہے ہے کہ سنبھل کر آنا حاصل اس کوچے میں جانے سے ہمیں ہے اور کیا الٹے گھر اپنے مگر خاک ...

    مزید پڑھیے

    دیکھیو اس کی ذرا آنکھ دکھانے کا مزا

    دیکھیو اس کی ذرا آنکھ دکھانے کا مزا چتونوں میں ہے بھرا سارے زمانے کا مزا کس مزے سے ہے عیاں دزدیٔ دل ہے ظالم لوں چرا کیونکہ ترے آنکھ چرانے کا مزا لذت وصل کوئی پوچھے تو پی جاتا ہوں کہہ کے ہونٹوں ہی میں ہونٹوں کے ملانے کا مزا کیا ترے میکش الفت کا یہ کیفیت ہے درد دل کر کے بیاں رونے ...

    مزید پڑھیے

    برہم کبھی قاصد سے وہ محبوب نہ ہوتا

    برہم کبھی قاصد سے وہ محبوب نہ ہوتا گر نام ہمارا سر مکتوب نہ ہوتا خوبان جہاں کی ہے ترے حسن سے خوبی تو خوب نہ ہوتا تو کوئی خوب نہ ہوتا اسلام سے برگشتہ نہ ہوتے بخدا ہم گر عشق بتاں طبع کے مرغوب نہ ہوتا کیوں پھیر وہ دیتا مجھے لے کر مرے بر سے اتنا جو دل زار یہ معیوب نہ ہوتا اس بت کو ...

    مزید پڑھیے

    اب گزارا نہیں اس شوخ کے در پر اپنا

    اب گزارا نہیں اس شوخ کے در پر اپنا جس کے گھر کو یہ سمجھتے تھے کہ ہے گھر اپنا کوچۂ دہر میں غافل نہ ہو پابند نشست رہ گزر میں کوئی کرتا نہیں بستر اپنا غم زدہ اٹھ گئے دنیا ہی سے ہم آخر آہ زانوئے غم سے ولیکن نہ اٹھا سر اپنا دیکھیں کیا لہجۂ ہستی کو کہ جوں آب رواں یاں ٹھہرنا نظر آتا ...

    مزید پڑھیے

    اب عشق تماشا مجھے دکھلائے ہے کچھ اور

    اب عشق تماشا مجھے دکھلائے ہے کچھ اور کہتا ہوں کچھ اور منہ سے نکل جائے ہے کچھ اور ناصح کی حماقت تو ذرا دیکھیو یارو سمجھا ہوں میں کچھ اور مجھے سمجھائے ہے کچھ اور کیا دیدۂ خوں بار سے نسبت ہے کہ یہ ابر برسائے ہے کچھ اور وہ برسائے کچھ اور رونے دے، ہنسا مجھ کو نہ ہمدم کہ تجھے اب کچھ ...

    مزید پڑھیے

    اے دلا ہم ہوئے پابند غم یار کہ تو

    اے دلا ہم ہوئے پابند غم یار کہ تو اب اذیت میں بھلا ہم ہیں گرفتار کہ تو ہم تو کہتے تھے نہ عاشق ہو اب اتنا تو بتا جا کے ہم روتے ہیں پہروں پس دیوار کہ تو ہاتھ کیوں عشق بتاں سے نہ اٹھایا تو نے کف افسوس ہم اب ملتے ہیں ہر بار کہ تو وہی محفل ہے وہی لوگ وہی ہے چرچا اب بھلا بیٹھے ہیں ہم شکل ...

    مزید پڑھیے

    نہ گرمی رکھے کوئی اس سے خدایا

    نہ گرمی رکھے کوئی اس سے خدایا شرارت سے جی جس نے میرا جلایا نہ بے چین ہو کوئی اب اس کی خاطر مرا چاہنا جو نہ خاطر میں لایا بہم دیکھ دو شخص ہو وہ بھی مضطر اکیلا میں جس کے لیے تلملایا پھرے جستجو میں نہ اب کوئی اس کی مجھے جس نے گلیوں میں برسوں پھرایا نہ بھولے سے یاد اب کرے کوئی اس ...

    مزید پڑھیے

    بیٹھے تو پاس ہیں پر آنکھ اٹھا سکتے نہیں

    بیٹھے تو پاس ہیں پر آنکھ اٹھا سکتے نہیں جی لگا ہے پہ ابھی ہاتھ لگا سکتے نہیں دور سے دیکھ وہ لب کاٹتے ہیں اپنے ہونٹھ ہے ابھی پاس ادب ہونٹھ ہلا سکتے نہیں تکتے ہیں اس قد و رخسار کو حسرت سے اور آہ بھینچ کر خوب سا چھاتی سے لگا سکتے نہیں دل تو ان پاؤں پہ لوٹے ہے مرا وقت خرام شب کو دزدی ...

    مزید پڑھیے

    مطلب کی کہہ سناؤں کسی بات میں لگا

    مطلب کی کہہ سناؤں کسی بات میں لگا رہتا ہوں روز و شب میں اسی گھات میں لگا محفل میں مضطرب سا جو دیکھا مجھے تو بس کہنے کسی سے کچھ وہ اشارات میں لگا ہوتے ہی وصل کچھ خفقاں سا اسے ہوا دھڑکا یہ بے طرح کا ملاقات میں لگا کل رات ہم سے اس نے تو پوچھی نہ بات بھی غیروں کی یاں تلک وہ مدارات میں ...

    مزید پڑھیے

    شب وصل دیکھی جو خواب میں تو سحر کو سینہ فگار تھا

    شب وصل دیکھی جو خواب میں تو سحر کو سینہ فگار تھا یہی بس خیال تھا دم بہ دم کہ ابھی تو پاس وہ یار تھا جو نہ تھا وہ غیرت گلستاں تو کروں اب اس کا میں کیا بیاں کہ الم جدائی کا ہر زماں مرے ایک دل پہ ہزار تھا شب ہجر کے کہیں کیا الم نظر آئے صبح کو بہتے یم کہ بہ جوش بارش ابر غم پہ بندھا سرشک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5