کیوں نہ ہوں حیراں تری ہر بات کا
کیوں نہ ہوں حیراں تری ہر بات کا حسن مرقع ہے طلسمات کا روؤں تو خوش ہو کے پیے ہے وہ مے سمجھے ہے موسم اسے برسات کا اٹھتی جوانی جو ہے تو دن بہ دن اور ہی عالم ہے کچھ اس گات کا گھر میں بلایا ہے تو کچھ منہ سے دو سیکھو یہ ڈھب ہم سے مدارات کا شیخ جواں ہوگا تو پی دیکھ اسے شیشے میں پانی ہے ...