داد خواہی

فیض آباد میں مرزا محمد تقی ترقیؔ کے یہاں مشاعرہ ہوتا تھا۔وہ شعرا کے ساتھ بزرگانہ برتاؤ کرتے تھے۔معلم ہوتا ہے کہ انہوں نے لکھنؤ آکر بھی یہ روایت قائم رکھی۔وہاں ایک مشاعرے میں جرأت بھی آئے اور اپنے شاگردوں کو ساتھ لائے۔جرأت کے بارے میں سید احمد علی یکتاؔ کا کہنا ہے کہ وہ جس مشاعرے میں جاتے تو آدھا مشاعرہ،بلکہ اس سے بھی زیادہ ان کے شاگردوں سے بھر جاتا۔چنانچہ وہ اس مشاعرے میں بھی اپنے بہت سے شاگردوں کے ساتھ پہنچے۔غزلیں سنائیں اور خاص و عام کی تعریفوں کا وہ غلغلہ اٹھا کہ شعر کا سمجھناکا تو درکنار سننا بھی مشکل ہوگیا۔میر تقی میرؔ بھی اس مشاعرے میں موجود تھے۔جرأت نے ہمت کرکے اپنے کو میرؔ کے پہلو تک پہنچایا اور اپنے شعروں پر داد خواہ ہوئے۔میرؔ نے پہلے تو کچھ کہنے سے پہلو تہی کی لیکن جب جرأت نے بے حد اصرار کیا تو میر بولے کہ یہ اتنا اصرار کرتے ہیں تو مجبوراً کہنا پڑتا ہے کہ(یہاں قدرتؔ نے میرؔ کا یہ اردو جملہ لفظ بہ لفظ نقل کیا ہے)''کیفیت اس کی یہ ہے کہ تم شعر تو کہہ نہیں جانتے ہو اپنی چوما چاٹی کہہ لیا کرو۔''
(مصنفہ علی جواد زیدی، تاریخ مشاعرہ، مطبوعہ شان ہند پبلکیشنز،نئی دہلی، صفحہ نمبر111-12،اشاعت دوئم1992)