Joshish Azimabadi

جوشش عظیم آبادی

  • 1737 - 1801

میر تقی میر کے ہمعصر،دبستان عظیم آباد کے نمائندہ شاعر، دلی اسکول کے طرز میں شاعری کے لیے مشہور

Prominent contemporary of Mir taqi Mir writing poetry at far-off Azimabad in Delhi style

جوشش عظیم آبادی کی غزل

    نوبت اپنی تو جان تک پہنچی

    نوبت اپنی تو جان تک پہنچی حیف اس کے نہ کان تک پہنچی دل کے ٹکڑے ہیں یہ ستارے نہ ہوں آہ لے آسمان تک پہنچی ہے وہ آزردہ بات شکوے کی کیا کسی مہربان تک پہنچی مفت فرسودہ ہوئی یہ پیشانی نہ ترے آستان تک پہنچی دشمنی مجھ سے تیری تیغ نے کی دوستی امتحان تک پہنچی آتش عشق نے جو سر کھینچا حسن ...

    مزید پڑھیے

    دنیا کی جستجو تو ہم سے نہ ہو سکے گی

    دنیا کی جستجو تو ہم سے نہ ہو سکے گی یہ منت آرزو تو ہم سے نہ ہو سکے گی گو شام سے سحر تک روئے ہے اور جلے ہے یہ شمع دو بدو تو ہم سے نہ ہو سکے گی بہتیری غائبانہ کرتے رہیں شکایت پر اس کے رو بہ رو تو ہم سے نہ ہو سکے گی مے خانۂ جہاں میں گزران شیخ صاحب بے جام و بے سبو تو ہم سے نہ ہو سکے ...

    مزید پڑھیے

    آئینۂ دل میں کچھ اگر ہے

    آئینۂ دل میں کچھ اگر ہے تیرا ہی جمال جلوہ گر ہے ہم مر گئے تیری جستجو میں بے رحم کہاں ہے تو کدھر ہے رہبر نہیں چاہتی رہ عشق واں شوق ہی اپنا راہ بر ہے کیوں مارے ہے لاف حج اکبر اپنے کئے پر بھی کچھ نظر ہے کعبے سی جگہ پہنچ پھر آیا تو حاجی نہیں ہے گیدی خر ہے اس در ہی کی آرزو میں ...

    مزید پڑھیے

    نہیں معتقد جو ترے دید کا

    نہیں معتقد جو ترے دید کا میں دیوانہ ہوں اس کی فہمید کا تعلق کسی سے نہیں غیر حق یہ عالم ہوا اپنی تجرید کا خیال دو عالم ہوا دل سے دور یہاں وقر کیا جام جمشید کا ہم آغوش وہ مجھ سے ہو یا نہ ہو دوانا ہوں میں دید وا دید کا یہاں نا مرادی ہے عین مراد نہ ہو بارور نخل امید کا یہ کوچے میں ...

    مزید پڑھیے

    دل میں ہر چند ہے خیال اس کا

    دل میں ہر چند ہے خیال اس کا نظر آتا نہیں جمال اس کا وہ جو تھی بے خودی سو ہے موجود ہجر سے کم نہیں وصال اس کا ہو چکا ہے جگر پسند مژہ دل کو مانگے ہے خط و خال اس کا شیخ اگر سامنے ہو مستوں کے نظر آ جائے سب کمال اس کا ہم پڑے اک زوال میں ؔجوشش دیکھ کر حسن بے زوال اس کا

    مزید پڑھیے

    دامان دل سے گرد تعلق کو جھاڑئیے

    دامان دل سے گرد تعلق کو جھاڑئیے جوں سرو پاؤں باغ تجرد میں گاڑئیے ممکن نہیں کہ دیکھیے روئے شگفتگی جب تک برنگ غنچہ گریباں نہ پھاڑیے جو کچھ کہ ہاتھ آئے اڑا دیجئے اسے قاروں کی طرح مال زمیں میں نہ گاڑیئے بستی میں دل کی حرص و ہوا کا قیام ہے توفیق ہو رفیق تو اس کو اجاڑیے ؔجوشش کوئی ...

    مزید پڑھیے

    گر کوئی کاٹ لے سر بھی ترے دیوانے کا

    گر کوئی کاٹ لے سر بھی ترے دیوانے کا پر یہ سودائے محبت ہے نہیں جانے کا مست رکھ یاد میں اس چشم کی تا روز جزا منہ نہ دکھلا مجھے یارب کسی مے خانے کا میرے دل کو بھی نہ ہووے ہوس بوسہ اگر آشنا لب سے ترے لب نہ ہو پیمانے کا حسن اور عشق کا مذکور نہ ہووے جب تک مجھ کو بھاتا نہیں سننا کسی ...

    مزید پڑھیے

    پڑتی ہے نظر جب کہ پر و بال پر اپنے

    پڑتی ہے نظر جب کہ پر و بال پر اپنے روتا ہوں قفس میں بہت احوال پر اپنے عشاق کے احوال پہ کیا اس کو نظر ہے وہ آپ دوانہ ہے خط و خال پر اپنے تحسین عمل کب اسے منظور ہے اے شیخ نظریں جو کرے آپ ہی اعمال پر اپنے کس طرح سے میں پیر کروں عشق کا دعویٰ پھبتی نہیں یہ بات سن و سال پر اپنے

    مزید پڑھیے

    مر رہتے ہیں در پر ترے دو چار ہمیشہ

    مر رہتے ہیں در پر ترے دو چار ہمیشہ ہے جور و جفا تجھ کو سزا وار ہمیشہ عاشق ترا مرنے کو ہے تیار ہمیشہ دکھلا نہ مژہ خنجر خوں خار ہمیشہ اک چھیڑ نکالے ہے نئی یار ہمیشہ رہتا ہے مرے درپئے آزار ہمیشہ اللہ سلامت رکھے تیرے لب شیریں سنوایا کرے باتیں مزے دار ہمیشہ ہے ڈر سے ترے عالم بالا ...

    مزید پڑھیے

    لب پر جو مرے آہ غم آلود نہیں ہے

    لب پر جو مرے آہ غم آلود نہیں ہے اظہار محبت مجھے مقصود نہیں ہے ہم جیسے فقیروں کو تو یوں بھی نہ کہے وہ پھر آئیو کچھ اس گھڑی موجود نہیں ہے کہتا ہوں میں یہ گبر و مسلمان کے منہ پر وہ عبد نہیں جس کا تو معبود نہیں ہے نرمائے ہے کس طرح سے اس آہن دل کو یہ آہ اگر نغمۂ داؤد یہیں ہے پھرتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5