نوبت اپنی تو جان تک پہنچی
نوبت اپنی تو جان تک پہنچی حیف اس کے نہ کان تک پہنچی دل کے ٹکڑے ہیں یہ ستارے نہ ہوں آہ لے آسمان تک پہنچی ہے وہ آزردہ بات شکوے کی کیا کسی مہربان تک پہنچی مفت فرسودہ ہوئی یہ پیشانی نہ ترے آستان تک پہنچی دشمنی مجھ سے تیری تیغ نے کی دوستی امتحان تک پہنچی آتش عشق نے جو سر کھینچا حسن ...