نوبت اپنی تو جان تک پہنچی

نوبت اپنی تو جان تک پہنچی
حیف اس کے نہ کان تک پہنچی


دل کے ٹکڑے ہیں یہ ستارے نہ ہوں
آہ لے آسمان تک پہنچی


ہے وہ آزردہ بات شکوے کی
کیا کسی مہربان تک پہنچی


مفت فرسودہ ہوئی یہ پیشانی
نہ ترے آستان تک پہنچی


دشمنی مجھ سے تیری تیغ نے کی
دوستی امتحان تک پہنچی


آتش عشق نے جو سر کھینچا
حسن کے دودمان تک پہنچی


بار غم جب کسی سے اٹھ نہ سکا
نوبت اس ناتوان تک پہنچی


تیرے مقتول کا ہے کام تمام
کارواں استخوان تک پہنچی


آتش گل سے جلتی مثل شرر
عندلیب آشیان تک پہنچی


کوئی سرگشتہ یاد آ ہی گیا
تیغ اس کی جو سان تک پہنچی


دیکھتے اس کو محو تھے ؔجوشش
کب شکایت زبان تک پہنچی