اک جستجو سدا ہی سے ذہن بشر میں ہے
اک جستجو سدا ہی سے ذہن بشر میں ہے جب سے ملی زمین مسلسل سفر میں ہے ہر چند میرے ساتھ اداسی سفر میں ہے روشن چراغ شوق مگر چشم تر میں ہے ملاح کہہ رہا ہے کہ ساحل ہے بس قریب لیکن مجھے پتہ ہے کہ کشتی بھنور میں ہے تم سے کبھی جو بول نہ پایا میں ایک بات بن کر خلش وہ آج بھی میرے جگر میں ...