اس طرح کھو گیا ہوں میں اپنے وجود میں
اس طرح کھو گیا ہوں میں اپنے وجود میں
اب خود کو ڈھونڈتا ہوں میں اپنے وجود میں
عادت سی پڑ گئی ہے جو تنقیص کی مجھے
کیڑے نکالتا ہوں میں اپنے وجود میں
کچھ اس طرح سے ڈھائے ہیں حالات نے ستم
گم ہو کے رہ گیا ہوں میں اپنے وجود میں
تم تو مرے وجود کا حصہ نہ تھے کبھی
کیوں تم کو ڈھونڈھتا ہوں میں اپنے وجود میں
قائم ہے مجھ میں میرے تخیل کی سلطنت
بے تاج بادشا ہوں میں اپنے وجود میں
مجھ پر مرے وجود کا ہر نقص ہے عیاں
خود ایک آئنہ ہوں میں اپنے وجود میں
نایابؔ انقلاب زمانہ کی ہے دلیل
بدلاؤ دیکھتا ہوں میں اپنے وجود میں