تپش عشق یا تیر کی گرمی
جس کسی نے ان دنوں کوئی دوا ایجاد کی بس یہ سمجھو اس نے اک بستی نئی آباد کی پھوڑ کر سر جیل میں بے چارہ مجنوں مر گیا اور صدائیں ہر طرف ہیں یار زندہ باد کی کیا بتاؤں اے طبیبو عشق کی تم کو تپش بس سمجھ لو جیسے گرمی تیر اور خورداد کی لیجئے آئے ہیں مجنوں مجھ کو دینے درس عشق آپ کی صورت تو ...