جام جم کے ساتھ
کاٹی ہے عمر ابروئے تیغ دو دم کے ساتھ
میں اس کے دم کے ساتھ ہوں وہ میرے دم کے ساتھ
دشت جنوں سمٹ کے کف پا سے جا ملا
منزل لپٹ کے رہ گئی نقش قدم کے ساتھ
آوارہ گردی فاقہ کشی فکر روزگار
یہ سب بلائیں لپٹی ہیں عاشق کے دم کے ساتھ
افیوں کا دور بھی ہے مے ارغواں کے بعد
جام سفال ہاتھ میں ہے جام جم کے ساتھ
اے شیخ توبہ رم نہیں ہوگی کبھی حرام
موجود رم ہے دیکھ حرم اور ارم کے ساتھ
ڈوبا ہوا ہوں خال دہن کی ریسرچ میں
ٹکرا رہا ہوں ساحل بحر عدم کے ساتھ
ایک کیو ہے آسماں سے زمیں تک لگا ہوا
غم غم کے بعد اور الم ہے الم کے ساتھ
ایسے سلام کو ہے مرا دور سے سلام
ہوتا ہے جو سلام کئی پیچ و خم کے ساتھ
کل تک بھی بات کرنے کا جن کو نہ تھا شعور
وہ ہم سے بات کرنے لگے آج ہم کے ساتھ
اتنا خمیدہ ہو گیا پیری کے ہاتھ سے
کرتا ہوں اک سلام بھی سو پیچ و خم کے ساتھ