تپش عشق یا تیر کی گرمی
جس کسی نے ان دنوں کوئی دوا ایجاد کی
بس یہ سمجھو اس نے اک بستی نئی آباد کی
پھوڑ کر سر جیل میں بے چارہ مجنوں مر گیا
اور صدائیں ہر طرف ہیں یار زندہ باد کی
کیا بتاؤں اے طبیبو عشق کی تم کو تپش
بس سمجھ لو جیسے گرمی تیر اور خورداد کی
لیجئے آئے ہیں مجنوں مجھ کو دینے درس عشق
آپ کی صورت تو دیکھو ہت ترے استاد کی
قرض تو بے شک لیا پر ہم نے کس کس سے لیا
یاد کچھ آتا نہیں یہ کیفیت ہے یاد کی
قیس آخر مر گیا سوز درون عشق سے
کھا گئی افسوس اس پودے کو گرمی کھاد کی
دیکھنا آخر سر بازار رسوا کر دیا
روز واعظ تم دعا مانگا کرو اولاد کی
مادر گیتی نے عصمتؔ کچھ مری پروا نہ کی
ساس کرتی ہے خوشامد کہتے ہیں داماد کی