جو مجھ پہ قرض ہے اس کو اتار جاؤں میں
جو مجھ پہ قرض ہے اس کو اتار جاؤں میں یہ اور بات ہے جیتو کہ ہار جاؤں میں کبھی میں خواب میں دیکھوں ہری بھری فصلیں کبھی خیال کے دریا کے پار جاؤں میں اک اور معرکۂ جبر و اختیار سہی اک اور لمحۂ تازہ گزار جاؤں میں بکھر گئے ہیں جو لمحے سمیٹ لوں ان کو بگڑ گئے ہیں جو نقشے سنوار جاؤں ...