Ishaq Athar Siddiqui

اسحاق اطہر صدیقی

اسحاق اطہر صدیقی کی غزل

    جو مجھ پہ قرض ہے اس کو اتار جاؤں میں

    جو مجھ پہ قرض ہے اس کو اتار جاؤں میں یہ اور بات ہے جیتو کہ ہار جاؤں میں کبھی میں خواب میں دیکھوں ہری بھری فصلیں کبھی خیال کے دریا کے پار جاؤں میں اک اور معرکۂ جبر و اختیار سہی اک اور لمحۂ تازہ گزار جاؤں میں بکھر گئے ہیں جو لمحے سمیٹ لوں ان کو بگڑ گئے ہیں جو نقشے سنوار جاؤں ...

    مزید پڑھیے

    ترے کرم کا مرے دشت پہ جو سایا ہوا

    ترے کرم کا مرے دشت پہ جو سایا ہوا مجھے لگا ہی نہیں میں بھی ہوں ستایا ہوا وہ تجربات کی حد سے نکل گیا آگے وہ ایک شخص کہ تھا میرا آزمایا ہوا کسی کے دست حنائی کا لمس روشن تھا کوئی چراغ نہ تھا ہاتھ میں چھپایا ہوا ہمارا نام نہیں ہے ہمارا ذکر نہیں مگر یہاں سے کوئی لفظ ہے مٹایا ہوا میں ...

    مزید پڑھیے

    اب بھی گزرے ہوئے لوگوں کا اثر بولتا ہے

    اب بھی گزرے ہوئے لوگوں کا اثر بولتا ہے راہ خاموش ہے امکان سفر بولتا ہے شاخ سے ٹوٹ کے رشتے نہیں ٹوٹا کرتے خشک پتوں کی زباں میں بھی شجر بولتا ہے یہ تو دنیا ہے تسلسل کا عمل جاری ہے بولنے والے چلے جائیں تو گھر بولتا ہے ڈھونڈنے جائیں تو ملتا ہی نہیں اس کا پتہ اور رستہ ہے کہ تا حد نظر ...

    مزید پڑھیے

    آخر شب بھی کسی خواب کی امید میں ہوں

    آخر شب بھی کسی خواب کی امید میں ہوں اک نئی صبح نئے دن نئے خورشید میں ہوں مجھ سے وہ کیسے کرے حرف و حکایت آغاز میں ابھی سلسلۂ حرف کی تمہید میں ہوں مجھ میں بھی فقر کی ہلکی سی جھلک ملتی ہے ہے مجھے فخر کہ اک صورت تقلید میں ہوں میں نے دیکھا ہے اسے یا نہیں دیکھا اس کو میں ابھی تک تو اسی ...

    مزید پڑھیے

    شامل کارواں تو ہم بھی ہیں

    شامل کارواں تو ہم بھی ہیں تیری جانب رواں تو ہم بھی ہے یہ حقیقت نہیں تو پھر کیا ہے یعنی وہم و گماں تو ہم بھی ہیں بار ہجرت سروں پہ ہے اپنے اتنے بے خانماں تو ہم بھی ہیں کہہ رہے ہیں خزاں زدہ چہرے اے بہارو یہاں تو ہم بھی ہیں سچ نہ مانو تو جھوٹ ہی کہہ لو اک رخ داستاں تو ہم بھی ہیں ہم ...

    مزید پڑھیے

    ترے انتظار میں کیا ملا ترے اعتبار نے کیا دیا

    ترے انتظار میں کیا ملا ترے اعتبار نے کیا دیا کبھی کوئی زخم تپاں ہوا کبھی کوئی داغ کھلا دیا یہ شب سفر بھی وبال ہے نہ فراق ہے نہ وصال ہے اسی شب نے نیند حرام کی اسی شب نے ہم کو سلا دیا مرے شہر گل مری ارض جاں کہیں کوئی ان کا بھی ہے نشاں تری بے خیال ہواؤں نے جنہیں راستے سے ہٹا دیا جسے ...

    مزید پڑھیے

    اے سوز دروں رنگ وفا اور ہی کچھ ہے

    اے سوز دروں رنگ وفا اور ہی کچھ ہے اب دل کے دھڑکنے کی صدا اور ہی کچھ ہے کوچے میں ترے شور فغاں کم نہیں لیکن درویش دعا گو کی صدا اور ہی کچھ ہے دل کش ہے بہت پیرہن لالہ و گل بھی لیکن ترا انداز‌ قبا اور ہی کچھ ہے جیسے کسی موسم کا گزر ہی نہ رہا ہو کچھ دن سے زمانے کی ہوا اور ہی کچھ ہے دور ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2