ترے انتظار میں کیا ملا ترے اعتبار نے کیا دیا

ترے انتظار میں کیا ملا ترے اعتبار نے کیا دیا
کبھی کوئی زخم تپاں ہوا کبھی کوئی داغ کھلا دیا


یہ شب سفر بھی وبال ہے نہ فراق ہے نہ وصال ہے
اسی شب نے نیند حرام کی اسی شب نے ہم کو سلا دیا


مرے شہر گل مری ارض جاں کہیں کوئی ان کا بھی ہے نشاں
تری بے خیال ہواؤں نے جنہیں راستے سے ہٹا دیا


جسے دست ظلم چھپا سکے نہ ہوائے جور بجھا سکے
سر راہ منزل زندگی وہ چراغ ہم نے جلا دیا


یہی غم گراں تھا سو رفتہ رفتہ ترے سرور خیال نے
سفر حیات کی مشکلات کو بھولنا بھی سکھا دیا