Ishaq Athar Siddiqui

اسحاق اطہر صدیقی

اسحاق اطہر صدیقی کی غزل

    آشنا نا آشنا یاروں کے بیچ

    آشنا نا آشنا یاروں کے بیچ منقسم ہوں کتنی دیواروں کے بیچ سانس بھی لیتے نہیں کیا راستے کیا ہوا بھی چپ ہے دیواروں کے بیچ ایک بھی پہچان میں آتی نہیں صورتیں کتنی ہیں بازاروں کے بیچ دیکھنا ہے کس کو ہوتی ہے شکست آئنہ ہے ایک تلواروں کے بیچ کیسی دھرتی ہے کہ پھٹتی بھی نہیں رقص مجبوری ...

    مزید پڑھیے

    گرفت سایۂ دیوار سے نکل آیا

    گرفت سایۂ دیوار سے نکل آیا میں ایک عمر کے آزار سے نکل آیا نہ جاننا بھی تو اک جاننے کی صورت ہے عجیب رخ مرے انکار سے نکل آیا میں اپنی قیمت احساس کے جواز میں تھا سو یہ ہوا کہ میں بازار سے نکل آیا ابھی رکے بھی نہ تھے ہم پڑاؤ کی خاطر نیا سفر نئی رفتار سے نکل آیا سمجھ رہے تھے کہیں ...

    مزید پڑھیے

    اس ہجوم بے اماں میں کوئی اپنا بھی تو ہو

    اس ہجوم بے اماں میں کوئی اپنا بھی تو ہو میں گلے کس کو لگاؤں کوئی زندہ بھی تو ہو برگ آوارہ ہوا نا آشنا بے مہر پھول آتے جاتے موسموں میں کوئی ٹھہرا بھی تو ہو سب گھروں میں لذت آسودگی ہے خیمہ زن میں صدا کیا دوں یہاں پر کوئی سنتا بھی تو ہو پھر سے شاخ دار پر کھلنے لگیں لالے کے پھول پھر ...

    مزید پڑھیے

    ہم مسافر ہیں کہ مقصود سفر جانتے ہیں

    ہم مسافر ہیں کہ مقصود سفر جانتے ہیں کیسے بنتی ہے کوئی راہ گزر جانتے ہیں بے گھری زاد سفر ہو تو ٹھہرنا کیسا اتنے آداب تو یہ خاک بہ سر جانتے ہیں راہ سنت بھی یہی جادۂ ہجرت بھی یہی پاؤں رک جائیں جہاں بھی اسے گھر جانتے ہیں کیا خبر ڈوب کے ابھریں کہ ابھر کر ڈوبیں زیست کو ہم تو سمندر کا ...

    مزید پڑھیے

    اپنے جوہر سے سوا بھی کوئی قیمت مانگے

    اپنے جوہر سے سوا بھی کوئی قیمت مانگے دل وہ آئینہ نہیں ہے کہ جو صورت مانگے میں نے دریاؤں میں بھی دشت کا منظر دیکھا جب کہ پیاسا کوئی پانی کی اجازت مانگے اس کی رفتار کی تصویر بنائی نہ گئی کس قیامت کو یہ ہنگام قیامت مانگے ناز کی قامت زیبا کی بیاں کیا کیجے پیرہن بھی جہاں اسلوب ...

    مزید پڑھیے

    بہتے پانی میں جو صورت ٹھہرے

    بہتے پانی میں جو صورت ٹھہرے میرے ہونے کی ضمانت ٹھہرے اس کے جلوے سے ملی ہیں نظریں اب کہاں پر مری قسمت ٹھہرے خود کو آئینہ صفت دیکھتا ہوں مجھ میں کچھ دیر تو قدرت ٹھہرے تیز رفتاریٔ دنیا کیا ہے میں بھی سوچوں جو یہ حالت ٹھہرے کوئی تو کار جہاں ہم نفسو جو مرے وقت کی قیمت ٹھہرے

    مزید پڑھیے

    سفر میں ہیں تو ہمیں یاد بام و در کی ہے

    سفر میں ہیں تو ہمیں یاد بام و در کی ہے ٹھہر گئے ہیں تو پھر آرزو سفر کی ہے سکوں سے بیٹھنے والو یہ تم نے سوچا بھی یہاں یہ چھاؤں ہے لیکن یہ کس شجر کی ہے مرے لیے مری ہجرت ہی اجر کیا کم ہے میں چل رہا ہوں کہ ہر راہ میرے گھر کی ہے ہمیں بھی ہے تو خبر دھوپ چھاؤں کی اطہرؔ کہ ہم نے بھی تو کوئی ...

    مزید پڑھیے

    کبھی اڑو تو سہی تم اڑان سے اوپر

    کبھی اڑو تو سہی تم اڑان سے اوپر فضائیں اور بھی ہیں آسمان سے اوپر مرا سفینہ عجب کشمکش میں تیرتا تھا ہوا سکوت میں تھی بادبان سے اوپر کسی نے سچ نہ کہا اور سب نے سچ جانا عجب کمال بیاں تھا بیان سے اوپر مرے حریف کے سب تیر بے خطا تو نہ تھے مگر وہ دست اماں تھا کمان سے اوپر کسی نے آج ہی ...

    مزید پڑھیے

    سر شاخ طلب زنجیر نکلی

    سر شاخ طلب زنجیر نکلی یہ کس کے خواب کی تعبیر نکلی زمیں پر بے زمینی کی کسک ہے یہ میرے نام کی جاگیر نکلی ارادوں سے نکل آئے ارادے مرے اندر عجب تعمیر نکلی دریچوں پر دریچے کھل رہے ہیں ہر اک تصویر میں تصویر نکلی سفر میں پھر سفر کے خواب آئیں یہی ہر خواب کی تعبیر نکلی سرافرازی کا ...

    مزید پڑھیے

    سارے موسم ہیں مہربان سے کچھ

    سارے موسم ہیں مہربان سے کچھ روز اترتا ہے آسمان سے کچھ ہر عبارت سوال جیسی ہے لفظ غائب ہیں درمیان سے کچھ کس کی لو نے جلا دیا کس کو راکھ میں ہیں ابھی نشان سے کچھ کس سے تفسیر ماہ و سال کریں دن گزرتے ہیں بے امان سے کچھ کیا خبر یہ کہاں تلک پھیلے اٹھ رہا ہے دھواں گمان سے کچھ کارواں کس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2