Irfan Anjum

عرفان انجم

  • 1977

عرفان انجم کی غزل

    اہل جنوں سا کام کسی نے نہیں کیا

    اہل جنوں سا کام کسی نے نہیں کیا صحراؤں میں قیام کسی نے نہیں کیا غالب تھے دشمنوں پہ مگر اہل ظرف تھے اقدام انتقام کسی نے نہیں کیا محفل میں کوئی صاحب حسن نظر نہ تھا پردے کا اہتمام کسی نے نہیں کیا سب لوگ مقتدی ہیں دماغوں کے آج کل اس قلب کو امام کسی نے نہیں کیا دنیا کی لذتوں میں ...

    مزید پڑھیے

    دل مرا مائل آرزو ہو گیا

    دل مرا مائل آرزو ہو گیا جب مرے یار کے روبرو ہو گیا دامن دل مرا چاک تھا یک بیک ان کی نظر کرم سے رفو ہو گیا وہ جسے میں نے دیکھا نہیں تھا کبھی آج وہ ہی مری جستجو ہو گیا خوب دل سے سنیں اس نے باتیں مری آج میں لائق گفتگو ہو گیا جب تصور میں تصویر یار آ گئی اک اجالا مرے چار سو ہو گیا بے ...

    مزید پڑھیے

    جو چوٹ کھانے سے ڈر رہے ہیں

    جو چوٹ کھانے سے ڈر رہے ہیں وہی شجر بے ثمر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں مجھے ڈرانا جو میرے زیر اثر رہے ہیں جنہیں سکھایا تھا ہم نے اڑنا وہ پر ہمارے کتر رہے ہیں سنا ہے وہ اب تو گفتگو بھی ہمارے لہجے میں کر رہے ہیں پرندے شہرت کے رفتہ رفتہ بلندیوں سے اتر رہے ہیں وہ آ رہے ہیں خبر چلی ہے سبھی ...

    مزید پڑھیے

    آئینوں کے لئے یہ بات سعادت کی ہے

    آئینوں کے لئے یہ بات سعادت کی ہے ان کو بھی آج تمنا تری صورت کی ہے ہو مبارک تمہیں ملکوں پہ حکومت یارو ہم نے اخلاق سے ہر دل پہ حکومت کی ہے شوق سے اہل سیاست نے سنیں ہیں باتیں کیسے سمجھیں گے مگر بات شرافت کی ہے منتخب جن کو کیا عرض تمنا کے لئے ان ہی لفظوں نے مرے ساتھ بغاوت کی ہے میں ...

    مزید پڑھیے