جو چوٹ کھانے سے ڈر رہے ہیں

جو چوٹ کھانے سے ڈر رہے ہیں
وہی شجر بے ثمر رہے ہیں


وہ چاہتے ہیں مجھے ڈرانا
جو میرے زیر اثر رہے ہیں


جنہیں سکھایا تھا ہم نے اڑنا
وہ پر ہمارے کتر رہے ہیں


سنا ہے وہ اب تو گفتگو بھی
ہمارے لہجے میں کر رہے ہیں


پرندے شہرت کے رفتہ رفتہ
بلندیوں سے اتر رہے ہیں


وہ آ رہے ہیں خبر چلی ہے
سبھی کے چہرے سنور رہے ہیں


وہ تک رہے ہیں مجھے مسلسل
بہت سے چہرے اتر رہے ہیں


وقیع کتنے یہ قید خانے
یہاں پہ اہل نظر رہے ہیں


یہ موت حیرت زدہ ہے انجمؔ
کہ لوگ جینے پہ مر رہے ہیں